نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ہم بھی وہیں موجود تھے۔۔




ہم بھی وہیں موجود تھے۔۔

مخفی نہ رہے کہ خدا وند عالم نے ہر بشر کو ابتداََ بے روزگار ہی پیدا فرمایا ہے۔  فدوی اپنی اسی  قابلیتِ فطری کی نگہداشت  میں یارانِ دیرینہ سے بالخصوص رابطہ میں رہا کرتا ہے۔ جب جہاں جس کو ضرورت ہو خادم حاضر ہے۔  یہی وجہ ہے کہ دوستوں کی سنگت کیلئے، ان تمام کاموں میں ، جنہیں عام حالات میں کوئی سلیم الفطرت شخص اہم  نہیں سمجھ سکتا ،  راقم القصور  کو ساتھ رکھا جاتا ہے۔  مثال کے طور پر منڈی سے جانور خریدنا ہو ،  آدھے راستے میں  موٹر سائیکل دھوکہ دے جائے،  شادی ہال کی بکنگ کروانی ہو،  دبئی سے آئے ہوئے پرانے ماڈل کے نئے موبائل فون کو سمجھنا ہو،  بے ڈھنگی غزلوں کی بحر درست کرنی ہو، کسی گمنام یونانی فلسفی کے بارے میں فون پر معلومات درکار ہوں،  محلے کے جھگڑے میں افرادی قوت کی ضرورت ہو یا جھگڑالو دوستوں میں صلح کرانی ہو،  کسی دور کے رشتے دار کو ایئر پورٹ سے لینے جانا ہو، یا مکان کی منتقلی میں سامان ڈھونے کی  رضاکارانہ  خدمت درکار ہو، یہ خاکسار دوستوں کو بے طرح یاد آتا ہے۔ یاد آنے کی اس سے زیادہ معقول وجہ  بظاہر نظر نہیں آتی کہ ہم بے روزگار ہیں اور بمطابق ” بے کار مباش کچھ کیا کر” دوست احباب ہماری مصروفیت کا کوئی نہ کوئی سامان کر ہی دیتے ہیں ۔    صرف ہمارے دوستوں کا معاملہ نہیں  ہے بلکہ ہم نے بھی

پھیرا نہیں پیغام کبھی کوئی جنوں کا

تنہا نہیں لوٹی کبھی آواز جرس کی

کی مکمل پاسداری کرتے ہوئے  انہیں  نجی نوعیت کی سماجی مصروفیات میں جوہر ہستی کو روزگار کے پنجوں سے محفوظ  رکھا ہوا ہے۔  ایسا بھی نہیں ہے کہ ہمیں ظیافتوں  میں یا د نہ کیا جاتا ہو، دعوتوں  میں نہ بلایا جاتا ہو   لیکن   اہمیت ہماری بہرحال وہی رہتی ہے ۔  ابھی کچھ ہی دن پہلے ، حسیب احمد خان  گھبرائے گھبرائے ہمارے پاس آئے،  پوچھنے پر بتایا کہ  وہ ایک ضیافت پر مدعو ہیں، جس کا اہتمام احباب چورنگی نے کیا ہے۔  دعوت کا سن کر خوشی  تو ہوئی مگر ظاہراََ بردباری قائم رکھتے ہوئے  قدرے بے نیازی سے پوچھا ” اچھا !  چلیں ٹھیک ہے دیکھیں گے، ویسے  دعوت کہاں ہے؟” کہنے لگے ” وہ میں پوچھ کر بتا سکوں گا البتہ  ساتھ چلیں گے”  حسیب احمد خاں کا تو معلوم نہیں ہم نے  وہ دو دن بردباری کے پردے میں جس اصطراب سے کاٹے وہ کچھ ہم ہی جانتے ہیں۔  فلاسفہ کے ہاں مشہور ہے کہ مضبوط تخیل کے مادی اثرات بھی ہوتے ہیں۔  ہمارا تخیل اتنا مضبوط تو نہیں تھا  مگر ہم اعتراف کرتے ہیں کہ ان دو دنوں میں  ہمیں لذیز کھانوں کی   بھینی بھینی لطیف خوشبوئیں آتی رہیں۔  کبھی محسوس ہوتا  کہ بس بریانی کے چاولوں میں ایک کنی رہ گئی ہے، کبھی بے وجہ کیوڑے کی  خوشبو دماغ کو معطر کر جاتی ،  کبھی لگی ہوئی فیرنی کی  مہک سے اچانک چونک اٹھتے ۔  یہ احساسات اس قدر قوی تھے کہ  ہم نے یہ کلیہ انتخاب کرلیا کہ جو  اصل ذائقہ  خیال میں موجود ہے اس کا عشر عشیر تک زبان کو میسر نہیں۔  بہرحال اللہ اللہ کرکے وہ دن بھی آیا جب حسیب احمد خان نے دعوت میں جانے کا عندیہ دے دیا ۔  ہم فوراََ  ان کے دولت کدے پر حاضر ہوئے ، آپ باہر تشریف لائے، کہا چلو۔  ہم نے پوچھا جانا کہاں ہے، انہوں نے بتایا کہ شنواری   پر دعوت دی گئی ہے۔۔۔۔ وہ اس کے بعد بھی کچھ بولتے رہے مگر ہمارا ذہن دو الفاظ کی بازگشت سے گونجتا رہا ۔۔۔ دعوت ۔ دعوت ۔۔۔دعوت۔ شنواری۔۔شنواری ۔سنواری ۔ نہ جانے وہ  کتنی دیر بولتے رہے  اور پتا نہیں کیا کیا بولتے رہے ، جب ہمارے حواس بحال ہوئے تو ان کی زبان پر یہ جملے تھے، ” تو پہلے فلاں کے گھر جانا ہے  پھر اس کے ساتھ ہی جائیں گے”   ہم نے  اپنی اندونی کیفیات کی مکمل پردہ پوشی کرتے ہوئے یہ تاثر دیا جیسے ہم نے سب کچھ سنا ہے اور پوری بات سے متفق ہیں،  ہم نے کہا ” جی درست ، تو  چلیں ان صاحب کا گھر کہاں ہے ؟”   حسیب میاں اپنے ہی محلے میں دوچار گلیوں میں پیچھے  کی طرف  ہماری رہنمائی کرنے لگے۔

جب ہم  مطلوبہ گلی میں پہنچے تو وہاں خاصہ اندھیرا تھا، مگر  گلی کے دوسرے کونے پر ایک بلب روشن تھا جس  کی کچھ نہ کچھ روشنی پوری گلی میں پھیلی ہوئی تھی۔  حسیب احمد  گلی میں مکان تلاش کرنے لگے  دریں اثنا ہم نے غور کیا کہ  گلی کے ماحول میں ایک واضح تبدیلی آچکی ہے  ہماری چھٹی حس نے خبردار  کرنا شروع کردیا۔  ہم نے پلٹ کر دیکھا تو ایک لمبا تڑنگا  بھاری بھرکم  مضبوط جسم والا انسان ہماری طرف بڑھ رہا تھا ۔  ننھا سا دل ،  شہر کے حالات ، اندھیری گلی،  ہم تو مارے خوف کے دیوار کی اوٹ میں چھپنے لگے  ۔ ادھر حسیب احمد خان اس پورے  منظر کی ہولناکی سے بے خبر  گلی میں دوسری طرف  مکان ڈھونڈنے میں مگن تھے۔  ہم نے دیکھا کہ وہ  عظیم الجثہ   شخص حسیب  میاں کی طرف بڑھ رہا ہے۔  ایسا نہیں کہ ہمیں جوش نہ آیا ہو مگر بس مصلحت کے تحت ہم نے چپ سادھ لی  اور ایک کونے میں دبکے رہے۔ اتنے میں حسیب  میاں نے مڑ کر دیکھا اور بجائے  ڈرنے کے مسکرا کر سلام کیا۔  اب ہماری بھی ہمت بندھی ،  ہم نے قدرے ہمت کا مظاہرہ کیا آگے بڑھ کر دیکھا تو ایک نستعلیق شخصیت،   باشرع روشن چہرے والا نوجوان  حسیب   احمد خان سے محوِ کلام تھا ، ہم نے دل میں سوچا کہ اچھا ہوا ہم ڈرے نہیں ورنہ خوامخواہ  پشیمانی ہوتی، ہم نے بھی بڑھ کر سلام کیا ان صاحب نے پرتپاک انداز میں  جواب دیا۔ حسیب میاں نے بتایا کہ ” یہ  ہمارے  عم زاد ہیں اور انہوں نے ہی دعوت کا اہتمام کیا ہے ” ہمارے دل میں ان کی قدرومنزلت کچھ اور سوا ہوئی۔  ہم تین افراد وہاں سے منزل مقصود کی طرف روانہ  ہوئے، راستے میں   ہر دو افراد کی گفتگو سے معلوم ہوا کہ  ضیافت شنواری پر نہیں بلکہ سلاطین  پر ہے  جس  کا اہتمام موصوف نے فرمایا ہے بہرحال مالی معاونین میں دیگر احباب بھی شامل ہیں ۔ ہم نے راستے میں ہی انہیں بھی غائبانہ دعائیں دینا شروع کردیں۔  جملہ تفصیلات کے علم میں آنے کے بعد ہمیں راستے ہیں ہونے والی گفتگو بے حیثیت معلوم ہوئی  کیونکہ ہم   منزل کے تعین کے بعد سفر میں کسی قسم کی سستی کے قائل نہیں۔

سلاطین پہنچنے  پر  آوارہ نظریں  باقی احباب کو بھی ڈھنڈنے لگیں۔   سامنے ایک تخت پر  کچھ  احباب جانے پہچانے معلوم ہوئے، ہم ان کی طرف بڑھے،۔ نام تو  ہمیں ایک دو کے علاوہ کسی کا نہیں آتا تھا بہرحال  یہ طے تھا کہ یہ سب احباب چورنگی  کے ساتھی ہیں۔ جن دد افراد کو میں جانتا تھا  وہ دونوں ہی صحافت سے منسلک ہیں ۔  ان میں سے چھریرے بدن اور معصوم چہرے والے   اول صحافی  نے بڑھ کر ہمارا استقبال کیا، جناب کے چہرے پر ہمیشہ ہی بشاشت ہوتی ہے، ہماری آپ کی پہلی ملاقات غالباََ دو ایک سال پہلے عمران صدیق صاحب کے دولت خانے پر ہوئی تھی،  گھنٹوں طویل اس ملاقات میں آپ کی شخصیت کے وہ جوہر سامنے آئے کہ ہم اسی روز سے آپ کے مدح ہو گئے، تیس چالیس افراد پر مشتمل ایک خالص مردانہ محفل کے انتظامات جس عمدگی سے  نبھائے گئے تھے اس سے آپ کا فہم، لیاقت اور سلیقہ جھلکتا  تھا۔ اُس محفل کے اختتام تک آپ کے چہرے سے کہیں پریشانی کے اثار ظاہر نہیں ہوئے، آپ کا چہرہ اسی طرح کِھلا  کِھلا  اور  تروتازہ تھا جیسا محفل کے آغاز میں تھا۔ معلوم یوں ہوتا تھا گویا آپ نے میزبان کا چہرہ نہیں دیکھا ورنہ رواداری میں اپنی بشاشت کو قابو میں رکھتے۔  آج بھی آپ چہرے پر  وہی مشکوک طمانیت نظر آرہی تھی جس کا شکار پچھلی مرتبہ عمران صدیق صاحب ہوئے تھے۔  البتہ  دوسرے صاحب جو صحافت سے منسلک  ہیں،  ان سے پچھلی ملاقات میں  خاطر خواہ گفتگو نہیں ہوسکی تھی، وہ اس بار بھی نہ  ہوسکی۔  ہمارا خیال ہے کہ دونوں مرتبہ  وجہ ایک ہی رہی، اور وہ وجہ ہے ہماری نشست ، یعنی ہم پچھلی ملاقات میں جناب کے دائیں جانب بیٹھے تھے، اور اس مرتبہ ہم بائیں جانب بیٹھ گئے، جبکہ موصوف سے ہمکلام ہونے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ آپ ان کے عین سامنے بیٹھیں۔  کیونکہ یہی وہ درست ترین زاویہ  ہے جہاں سے حضرت کے  پرنور چہرے کی زیارت کی جاسکتی ہے۔  ہماری طرح دائیں ، بائیں  سے فقط  سر کو اپنی آغوش میں لئے  ہوئی،  ان کی اپنی ہی زلفیں نظر آتی ہیں۔ البتہ سامنے کی طرف سے انتظاماََ  زلفوں  کو ہٹایا گیا ہے ، کیونکہ گفتگو کے علاوہ  دیگر مفید امور  میں بھی  رکاوٹ پیدا ہوسکتی تھی۔

محسوس یوں ہوتا ہے کہ آپ اپنے قلبی ارادے سے زلفوں کو پریشاں رکھتے ہیں  جو آپ کو   جنوب اور شمال سے دیکھنے والوں کی نظر سے محفوظ رکھتی ہیں ۔  جنوب کی آبادیوں  کے معاملے کا تو علم نہیں البتہ  شمالی علاقاجات  اور متصل علاقوں میں آپ نے لوگوں کی آتش شوق کو خوب بھڑکائے رکھا۔  زندگی سے بھرپور  چمکتی آنکھوں اور  نعیم چہرے  پر پھیلی  دوستانہ مسکراہٹ  لئے انہوں نے ہم سے مصافہ کیا۔ دو احباب اور تھے جنہیں میں نہیں جانتا، چورنگی کی پچھلی ملاقات میں یہ  لوگ شامل نہیں تھے،  ایک نے سرخ کرتا زیب تن کر رکھا تھا،  چہرے پر شرعی دارڈھی اور ہاتھ میں انگریزی سگار  لئے یہ پرجوش نوجوان  بہت خندہ پیشانی سے ملے۔  انہی کے ساتھ جو دوسرے صاحب تھے، وہ بھی  بات بات  پر اپنی مسکراہٹ سے اخلاقیات کا اظہار فرما رہے تھے۔  دونوں  نوجوان بہت خوش معلوم ہورہے تھے جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ بہرحال میزبان نہیں ہیں۔ ہم سب ایک طویل تخت پر  حلقہ بنا کر بیٹھ گئے، اتنے میں مولائی تشریف لائے،  آپ سے بھی پہلی ملاقات عمران صدیق صاحب  کے گھر ضیافت میں ہوئی تھی، اور آپ کے بھی مدح ہم اسی روز ہو گئے تھے۔ آپ نے لوگوں کے بارے میں “علم کا ٹھاٹھے مارتا سمندر” تو سنا ہوگا مگر ہمارے مولائی، “علم کا قہقہے مارتا سمندر” ہیں۔ اس قدر زندہ دل انسان ، گفتگو میں ایسی حلاوت  ایسی مٹھاس کے غمگین سے غمگین انسان دو گھڑی میں ہشاش بشاش ہو جائے۔ ہم نے کبھی کسی عالم دین کو اتنا  خوش مزاج اور زیرک بیک وقت نہیں دیکھا۔ مولائی کے بارے میں ہم ایک اہم غلط فہمی کا شکار رہے ہیں ۔ ہم  مولائی کو پچیس چھبیس سال کا نوجوان تصور کئے بیٹھے تھے، حسیب احمد خان نے گزشتہ دنوں میں ہی  بتایا کہ مولائی  کی درست عمر کا اندازہ  انہیں دیکھ کر نہیں لگایا جاسکتا،  حقیقیت یہ ہے کہ مولائی  تو ہم سے بھی کافی پہلے جوانی سے جان چھڑا چکے ہیں۔  حالانکہ مولائی تازہ تازہ کسی  اقتصادی حادثہ کا شکار ہوئے تھے  جس کا ذکر وہ دوستوں کی عبرت  کی خاطر بار بار کر رہے تھے جس میں “آدھے لاکھ سے زیادہ  کی رقم ہاتھ سے گئی تھی” اس کے باوجود جب ہم سے ملے تو بہت خندہ پیشانی سے ملے بہت شفقت سے پیش آئے۔ مزید احباب بھی  آتے رہے  رفتہ رفتہ تخت  بھر گیا،  اس سے پیشتر کے  احباب میں تخت نشینی کے معاملے میں  کوئی تنازعہ ہوتا، وہی مطمئن صحافی  دوست نمودار ہوئے اور اپنی روائتی دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے قدرے بڑے تخت کا بندوبست فرما لیا، اس نئے اور بڑے تخت پر منتقل ہونے سے لوگوں کی نشست تبدیل ہوگئی ۔ لیکن شومی قسمت ہماری نشست ایک مرتبہ پھر گہری آنکھوں والے صحافی دوست کے پہلو میں رہی ۔ خیر اس  وقت تک تو ہمیں سمتوں کے معاملے کا اندازہ ہی نہیں تھا اس لئے افسوس بے کار ہے۔

بڑے تخت پر تمام احباب موجود تھے، دوستانہ بات چیت چھیڑ چھاڑ جاری تھی ۔ ہمیں اکثر باتوں کا درست ادراک ہو نہیں پاتا تھا کیونکہ یہاں موجود لوگوں کی تقریباََ نوے فیصد گفتگو گزشتہ سے پیوستہ ہوتی۔ جس سے ہم بہرحال  ناواقف ہوتے۔ اب اثار ظاہر تھے کہ  ضیافت کا باقاعدہ آغاز جلد ہو جائے گا۔ ہمیں لوگوں کی باتوں سے دلچسپی تو تھی مگر اس کی وجہ سے ضیافت میں تاخیر نامناسب لگ رہی تھی۔ دوسری طرف یہ حقیقت ہے کہ  خالی پیٹ میں دنیا کی رونقیں پھیکی  لگتی ہیں، ورنہ اچھے سے اچھے موضوع پر انسان سوچتا  ہے کہ “سب باتیں بھرے پیٹ کی ہیں،  فاقے کی گرمی سے تہذیب بخارات بن کر اڑ جاتی ہے”لیکن ابھی وہ صورتحال نہیں  تھی لہذا ہمیں بھی انتظار کرنا تھا۔ ایک دلچسپ اور عجیب بات یہ تھی کہ یہ تمام افراد ایک دوسرے کو  کم از کم دو ناموں سے پکار رہے تھے، یعنی پہلے مخاطب کا “ای نام” پکارا جاتا پھر اسکے اصلی نام سے  بات کی جاتی۔  اپنی عمر اور فکر کے لوگوں کیلئے بتاتا چلوں کہ یہ “ای نام” شاعروں کے تخلص کی مانند ہوتا ہے، یعنی وہ  نام یا وہ  لفظ  جس کے بارے میں آپ یہ چاہتے ہوں کہ لوگ آپ کو اُس نام یا لفظ سے پکاریں۔ ایک صاحب کو بار بار “پاگل ، پاگل” کہا جارہا تھا ۔ ہمیں حیرت تھی  کہ یہ کیسی نفسیات ہے، جب شخصیت کی طرف نگاہ گئی تو ہم پہچان گئے، یہ وہی صاحب ہیں جن سے اول ضیافت میں بھی اور صابری نہاری پر ہونے والی ضیافت میں بھی بہت دل لگا تھا۔ یہ بھی ایک عجیب معاملہ ہے کسی شخص سے بغیر کسی معقول وجہ کے ایک قلبی تعلق پیدا ہوجاتا ہے، گزشتہ دونوں ضیافتوں میں بھی اور اس بار بھی ہمیں موصوف کی ہر بات سے خوامخواہ اتفاق ہونے لگا، حالانکہ  آپ کی اکثر باتیں غلط  اور بے دلیل ثابت ہو رہی تھیں مگر لہجے کے خلوص اور سچائی کی وجہ سے چاہنے والوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہورہی تھی۔ ہمیں اطمینان تھا کہ چاہئے باتیں ساری غلط ہوں ، انسان اچھا ہے۔  کیونکہ ہم نے دنیا میں وہ لوگ بھی دیکھے ہیں جن کی باتیں ساری اچھی ہوتی ہیں، مگر وہ لوگ اچھے نہیں ہوتے۔

کچھ دیر بعد ایک کھیپ پہنچی  جس میں  انتہائی  عالمانہ حلیے کے چار افراد نگاہیں محفل پر پیوست کئے  محفل کی طرف بڑھ رہے تھے۔ سب لوگوں نے بہت احترام سے انہیں خوش آمدید کہا،  ان میں سے تین ایک طرف اور ایک صاحب  تقریباََ درمیان میں تشریف فرما ہوئے۔ اب جو ہم نے پلٹ کے دیکھا تو پیروں تلے زمین نکل گئی۔ بھئی کیا دیکھتے ہیں کہ مولانا حمید الدین فراحی رحمتہ اللہ علیہ  گہرے سرمائی رنگ کے شلوار قمیض  میں ملبوس  ہماری طرف بڑھ رہےہیں۔ وہی جوانی اور ادھیڑ عمری کے درمیان کی شبیہ، وہی لباس کی سادگی، پروقار چہرے سے ٹپکتی علمیت اور بزرگی، انداز میں شائستگی لئے بالکل ہمارے قریب آگئے۔ لمحے بھر میں کیا کیا خیال ہمارے ننھے سے ذہن میں نہ آگئے ۔ یعنی یہ تو علم میں ہے کہ حق تعالی ٰ نیک لوگوں کو برزخ کی زندگی میں سہولت سے رکھتے ہوں گے، مگر کیا انہیں یوں آزاد پھرنے اور دنیا کے چکر لگانے کی اجازت بھی مل گئی ہے؟ مگر دیگر احباب کے خوش آمدید سے  اندازہ  ہوا کہ معاملہ کچھ اور ہے، ان صاحب کا تعارف  کسی اور نام سے ہوا تو ہمیں تسلی ہوئی کہ مولانا کے ہم شکل ہیں۔  دیگر صاحبان جو ان سے قبل آگر بیٹھے تھے  ان کا تعارت یوں سامنے آیا کہ تین افراد جو کہ عالمِ دین ہیں پنجاب کے مختلف شہروں سے آئے ہیں حالانکہ تعارف میں اس بات کی قطعی ضرورت نہیں تھی تھوڑی دیر میں ہمیں اندازہ ہو ہی جاتا، چوتھے صاحب سے پہلے بھی شرفِ ملاقات حاصل رہا، منہ میں پان کی گلوری  آنکھوں پر عینک ٹکائے تخت پر نیم دراز یہ کراچی والے مولوی صاحب  تھے۔ جو پچھلی ضیافت میں انتہائی لذیز “کچا گلّہ” نامی مٹھائی  بہت وافر مقدار میں لائے تھے اور اسی روز سے ہمارے دل میں آپ کی قدرومنزلت مسلم ہوگئی تھی۔ ہر چند کے آج بھی تخت پر ایک مٹھائی کا ڈبہ موجود تھا جس کی بابت سننے میں آیا تھا کہ یہ ڈبہ وہ سرخ جوڑے، شرعی داڑھی اور انگریزی سگار والے نوجوان کی طرف سے ہے۔  جہاں تک کراچی والے مولوی صاحب کا تعلق ہے تو آپ کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے ماشاءاللہ جہان دیدہ شخصیت ہیں بھلے برے میں تمیز کرتے ہیں علم اور ثقافت کا امتزاج ہیں لہذا جب دوستوں کی محفل میں گئے تو کراچی کی مٹھائیوں کا دل نکال لائے۔ اب  یہ انگریزی سگار والے صاحب ٹھہرے نوجوان،  ابھی جذبوں کی طغیانی سنبھالیں یہ جہان کے جھمیلے؟  آپ کہاں ان چکروں میں پڑیں گے کہ مٹھائی کون سی ہو کون سی نہ ہو۔ گئے ہونگے مٹھائی والے کنے  کہ میاں تول دے  آٹھ دس سیر، اس نے بھی پوچھا ہوگا “صاحب کون سی مٹھائی ؟ “می -کس” تول دوں ؟   اور آپ نے موبائل فون پر کسی سے گفتگو کرتے ہوئے  بیزاری سے جواب دیا ہوگا ” ہا ں ہاں تول دے”۔ ایسی صورت میں ہماری مشکل بڑھ جائے گی یعنی   پندرہ سترہ  مولویوں کے سامنے رکھے ڈبے میں اپنی مطلوبہ مٹھائی تک پہنچ جانا  جوئے شیر لانا ہے ،  خیر اب تو ڈبہ کھلنے پر ہی اصل صورتحال سامنے آئے گی۔

کھانے کا انتظار جس شدت سے مجھے تھا  اتنا کسی اور کو  نہیں تھا،  یا کم از کم کوئی ظاہر نہیں کر رہا تھا،   لوگ باتوں میں مشغول تھے ، ایک کے بعد ایک قصہ شروع ہوجاتا ۔  ہماری بے چینی بڑھتی جارہی تھی ۔  بھوک نے ادھ موا  کردیا تھا ۔  مگر وہ صاحب جو غالباََ وفاقی دارلحکومت سے تشریف لائے تھے ، ہماری محرومیوں کو سمجھ ہی نہیں رہے تھے مسلسل گفتگو فرمانے میں مصروف تھے، انہیں شاید اندازہ نہ ہو مگر  ہمیں اچھی طرح یاد ہے سلاطین کا بیرا، ان کی گرم گفتار ی کے باعث پورے  دس منٹ تک کھڑا انتظار کرتا رہا۔ خیر ہم وفاقی مولانا سے  شکایت بھی کیا کرسکتے تھے، بہرحال وہ مہمان تھے۔ آپ کے سلسلہء کلام میں رخنہ اندازی سے بچنے کی  دوسری اہم وجہ آپ کے چند ابتدائی جملے بھی بنے جس میں آپ نے سترہ علماءکرام کی موجودگی میں واشگاف انداز میں اعلان فرمایا  تھا کہ آپ  حق بیان کرنے میں مغلظات سے استفادہ  کرنے کو بُرا محسوس نہیں کرتے۔  پھر کسی شخص کا بتانے لگے کہ بحث کے دوران نہ وہ محرمات ابدیہ کو بخشتے ہیں نہ محرمات عارضیہ کو ۔اس تمہیدی تعارف کے بعد ہمیں بھوک برداشت کر لینا زیادہ مناسب لگا۔ دوسری طرف بیرا چمکتے ہوئے بڑےبڑے تھالوں میں خوان بھرے ادھر ادھر منڈلا رہے تھے جنہیں دیکھ دیکھ کر اپنی بے بسی کا احساس دو چند ہو جاتا تھا۔ کسی کو بکرے کی چانپ پیش کی جارہی ہے تو کہیں  سالم مرغ طباق میں رکھ کر پیش کیا جارہا ہے۔ سیخ کباب  کا دھواں غم کے بادلوں کی طرح  ماحول پر چھایا ہوا تھا۔ بیرے تیز تیز قدموں سے چلتے  ہوئے لوگوں کے آگے خوان بچھا رہے تھے۔ پیتل کی رکابیوں دھرے روغنی نان  کی مہک نے ہمیں  دیوانہ کردیا تھا مگر یہ ہمارے تخت تک نہیں پہنچ رہے تھے بلکہ کہیں اور ہی جارہے تھے۔

نان” بن بن کے میری جان کہاں جاتے ہیں

یہ میرے قتل کے سامان کہاں جاتے ہیں

اب معاملہ برداشت سے باہر ہوتا جارہا تھا ،  ہم بار بار سوالیہ نظروں سے  مطمئین  صحافی دوست کی طرف دیکھ رہے تھے  مگر وہ گفتگو میں محورہے. ہماری ساری توجہ اس بات پر تھی کہ آخر کیسے احباب کو یہاں آنے کے اصل مقصد کی طرف متوجہ کیا جائے،   کئی کئی بار پانی پی کر دکھا دیا ،  چہرے پر نقاہت تو آپ سے آپ  چیخ چیخ کر   دہائیاں دے رہی تھی۔  ع: ناخدا جن  کا نہ ہو ان کا خدا ہوتا ہے،  اللہ نے ہماری سن لی بیرا  ہمارے تخت کے پاس آکر کھڑا ہوگیا ،    بیرے کو کھانے کا کہہ دیا گیا ، ہمیں کان و کان خبر نہ ہونے دی گئی،  کچھ دیر بعد بیرے   دو بڑی سینیوں میں  سلاد سجا لائے،    ہماری تقریباََ وہی حالت تھی جو روزہ کشائی  والے دن افطار سے پہلے ہوتی ہے، ہماری آنتیں قل  ھو اللہ  پڑھ رہی تھیں  ، کھانا لایا گیا، ترتیب یوں بنی کے ہمیں ، وہ شرعی داڑھی اور انگریزی سگار والے صاحب کے ساتھ جو دوسرے  نوجوان  اضافی مسکراہٹوں  والے تھے ان کے ساتھ ایک ہی رکابی میں کھانا تھا، بہت بہتر  صورت تھی،  مبادا کہیں کسی بڑے مولوی صاحب کے ساتھ کھانا پڑتا تو  انجام واضح تھا،   لاہور شہر سے آئے دونوں مہمان  قدرے سہمے سہمے بیٹھے تھے کھانا کھاتے ہوئے بھی  وہ اہلِ محفل کے خدشات کو درست ثابت نہ کرسکے،  یعنی    لاہوریوں کے بارے میں عام خیال یہی ہے کہ ماشاءاللہ بہت خوش خوراک ہوتے ہیں  ، پھر یک نہ شد دو شد یہ مولوی بھی ہیں   ۔  اہلِ محفل سمیت ہم بھی کھانے کے دوران بہت سے عبرتناک  مناظر کی توقع کر رہے تھے مگر صورتحال بالکل الٹ تھی،   مگر ان کا ایک غائبانہ احسان  ہوگیا، لوگوں کی توجہ ان پر تھی اور ان کی آڑ میں کام کوئی اور دکھا گیا۔

ہمیں اس بات کا قلق تھا کہ مخالفین کے مقابلے پر کھانا نکالنے میں نوجوان کا ہاتھ ہلکا پڑرہا تھا،  اس قسم کی محفل میں کھانا نکالتے ہوئے  جس چابکدستی  اور مہارت کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہمیں اس نوجوان میں نظر نہ آسکی ، خیر اس پر کڑھنے سے بہتر تھا جو کچھ رکابی میں تشریف لا چکاہے  اس کا حق ادا کیا جائے،   دورانِ  ادائیگیِ حقوقِ درسترخوان  ہم سے ایک  غلطی ہوگئی، وہ یہ کہ نظر بیرے کے ہاتھ میں رکھے تل لگے کلچوں  میں اٹک گئی، جو کسی اور کے لئے جارہے تھے

حسرت ان کلچوں پہ ہے جو بن ملے الجھا گئے۔

احباب ِ محفل کے سامنے دسترخوان زیادہ دیر نہ ٹک سکا  کچھ ہی دیر میں دَم دے گیا ،  ہم  نے اپنی رکابی سے فارغ ہو کر  دسترخوان کو دیکھا تو۔ ع-سامنے ڈھیر تھا اجڑے ہوئے ارمانوں کا ۔۔ تفصیلات  نامناسب ہیں بس یوں سمجھ لیں کہ  کسی نفیس ایرانی قالین پر   کانچ کے قمقمے سجے ہوں  اور اس پر سے  گھڑسواروں کا ایک لشکر جرّار گزر جائے۔ اپنی   رکابی اور نوجوان کے انکسار سے  جتنا سیر ہو سکتے تھے ہو لئے،   کھانے سے فارغ ہونے کے بعد مٹھائی کا ڈبہ کھولا گیا،  صاحب کیا دیکھتے ہیں کہ اندر سے وہی  ہوش ربا کچا گلّہ  برآمد ہو رہا ہے،  مارے خوشی کے نوجوان کا منہ چومنے کو دل چاہا ، مگر اندیشہ یہ تھا کہ لوگ ہمارے جذبہ ء تشکر  کے قلبی ارادوں سے ناواقفیت کی  بنیاد پر اس   مسئلے میں جو رائے قائم کریں گے وہ بہت نامناسب ہوگی۔  ہماری جانب کچے گلے کی  ڈلیاں  بڑھائی گئیں،    ہر  ڈلی  ڈیڑھ دو چھٹانک کی تو ہوگی۔ اس بہترین انتطام ،  اور وافر مقدار پر مٹھائی بہم پہنچانے پر اس نوجوان سے سارے شکوے گلّے دور ہوگئے،

کھانے کے بعد اتنے علماء کرام کی موجودگی میں  جیب سے مینہءغریباں کی   برآمد گی میں ہمیں   کچھ تذبذب  تھا  مگر اسی انگریزی سگار والے نوجوان نے  ہماری ہمت بندھائی،  اور ہم نے  مینہء غریباں  سلگا لی، اب اہل مجلس نے  ہم سے کلام کی فرمائش کی  ،   ہمارے بعد حسیب احمد خان نے کلام پیش کیا  اور بس اس کے بعد سے پھر وہی  سنگین مباحث شروع ہوگئے  جو ابتدا سے جاری تھے۔ اسی دوران چائے کا دور بھی چل  گیا ۔ ۔   بیرے نے اخراجات کا پھرّا سامنے کیا،  رقم ہمارے کانوں میں پڑی  وہ بہت  زیادہ تھی۔ احباب نے دستِ تعاون دراز کیا ، ہمارے ضمیر نے بھی ایک دو مرتبہ دبی دبی سے آواز اٹھائی،  ہم نے سمجھایا میاں  اول تو تم مہمان ہو دوم  بے روزگار ، تم پر انفاق فرض نہیں ہے،   مگر وہ بضد رہا ، خیر ہم نے دل پر پتھر ، آنکھوں میں نمی، اور چہرے پر مسکینیت    سجا کر وہ واحد پانچ سو روپے کا نوٹ بڑھا دیا،  مگر مطمیئن صحافی دوست نے یہ کہہ کر رقم واپس کردی کہ ” نہیں نہیں آپ مہمان ہیں اور ویسے بھی حسیب احمد کے ساتھ آئے ہیں” اس سے پیشتر کہ وہ اپنا جملہ ختم کرتے ہم اپنا ہاتھ واپس کھینچ چکے تھے۔

تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز

دل سے دیتا نہیں ہر ہاتھ بڑھانے والا

کئی ہزار روپے اس دعوت پر خرچ ہوئےیہ سراسر ، اسراف تھا،  اس رقم سے کیا کیا ہوسکتا تھا اس کا اندازہ اپنے اپنے میلان طبعی کے مطابق کیا جاسکتا ہے، یعنی غریبوں کیلئے مہینے بھر کا سودا سلف ،  غریب بچیوں کی شادیایوں کے علاوہ بھی بہت کچھ سوچنے کی  آزادی موجود ہے،  مگر محفل میں علماءکرام کی توجہ شاید دیگر دینی امور پر مرکوز تھی  اس لئے  اس مسئلے پر توجہ نہیں دی گئی، ۔آدھی رات سے زیادہ کا عمل تھا ہم تیزی سے گھر جانا چاہتے تھے، لذیز کھانا اپنے منطقی انجام کو پہنچنا چاہتا تھا، کلام پر ہونے والی واہ واہ ہوا میں تحلیل ہوگئی تھی،  ہم وہی تھے ، جیسے گئے تھے ویسے ہی لوٹ آئے، “بے روزگار گیا تھا بے روزگار آیا”۔ اب اگلی بار پھر محفل سجانے کا ارادہ ہے، امید ہے اس مرتبہ  بھی دعوت میں  ہمیں یاد رکھا جائے گا ۔ اسی محبت اور اخلاص سے لوگ ملیں گے، دعوت میں  سادگی ،بے تکلفی اور حقیقی دوستی کا مظاہرہ ہوگا۔


http://ur.thetruthinternational.com/opinions/blogs/virtual-ghathering/


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

آم سے عام کو خطرہ

آم سے عام کو خطرہ اس میں شک نہیں کہ بعض پھلوں کا ذائقہ انسان کو اپنا گرویدہ کر لیتا ہے ۔ مگر یہ کام جس انداز سے حضرت آم نے انجام دیا ہے اس کی نظیر ملنا مشکل ہے ۔ کیا شاہ کیا گدا ۔ کیا شاعر کیا بے نوا ۔ ہر ایک اس نعمت خداوندی پر فریفتہ ہے ۔رنگت خوش بو اور ذائقے میں یہ پھل ایسا ممتاز ہے کہ دیگر پھلوں کا بادشاہ ہے۔ ہر چند کے بادشاہت ان دنوں پسندیدہ طرز حکومت نہیں  رہا ۔ مگر ہمیں امید واثق ہے کہ اگر مملکت نباتات میں جمہوریت بھی آجائے تو صرف نظام ہی بدلے گا چہرے نہیں بدلیں گے ۔ حکمراں تب بھی آم ہی رہے گا ۔ اقتدار کا جھنڈا  اگر ایک ہی ہاتھ میں ہو ۔ تو چاہے بادشاہت ہو۔ آمریت ہو ۔ جمہوریت ہو ۔ حکمراں کا کچھ نہیں بگڑے گا ۔  آم گرمیوں کا پھل ہے ۔ گرمیوں کے اور بھی پھل ہیں مگر کسی کی کیا مجال کے آم  سامنےٹک سکے ۔ آموں کے آنے کے بعد کسی اور پھل پر نظر التفات  کا اٹھنا ہم بےوفائی سے تعبیر کرتے ہیں ۔ ہمیں یاد نہیں کہ کسی سال ہم نے وصال آم اور فراق آم کے درمیان کوئی پھل چکھا تک ہو ۔ باقی سال بھی جو پھل کھایاتو بس یوں سمجھ لیں کہ فراق یار میں جی بہلانے کو کھایا ۔ ایک طرح کی شدت پسندی ہے ۔ مگر کیا کریں

اے آئی ۔رضیہ غنڈوں میں پھنس گئی

اے آئی  ۔رضیہ  غنڈوں میں پھنس گئی   آرٹی فیشل انٹیلی جنس ۔رضیہ  غنڈوں میں پھنس گئی ان دنوں ہمارے چاروں طرف اے آئی یعنی آرٹی فیشل انٹیلی جنس کا شور ہے۔ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ حضرت انسان نے کمپیوٹر کو اتنی ترقی دے دی ہے کہ اب وہ خود ہماری مدد کرنے پر تُل گیا ہے ۔ لیکن یہ بس خیال ہی ہے ۔ خدا گواہ ہے ہمیں تو بےچارے کمپیوٹر پر ترس ہی آتا ہے ۔ اسے اندازہ ہی نہیں ہو رہا کہ کس کے ہتھے چڑھ گیا ہے ۔  ابھی تو اس غریب کو یہ لگ رہا ہے کہ اسے بھی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مل گئی ہے  لہذا وہ لوگوں کے کام آئے گا ۔ مگر وہ دن دور نہیں کہ اسے بھی لگ پتہ جائے گا کہ اس کے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے ۔ میاں یہ انسان  ہے ۔ جب اپنی پر آجائے تو کیا کمپیوٹر کیا فلسفہ کیا سائنس   ۔ سب کو ایک ہی لکڑی سے ہانکتا ہے ۔ ذرا سوچیئے تو سہی ۔ تانبے ۔لوہے ۔اور پلاسٹک سے بنے جادوئی ڈبے کی کیا مجال ہے کہ ہمارے آگے پر مارے۔ ابھی تو بہت پھڑپھڑا رہا ہے ناں ۔ کچھ دن رک جائیں ۔ اسے پتہ پڑ جائے گا کہ واسطہ کس سے پڑا ہے ۔ یہ کمپیوٹر خود چلا چلا کر کہے گا بھائی معاف کر دے  غلطی ہوگئی ۔ تجھے سمجھانے چلا تھا ۔ جن لوگوں کو اپنی پڑھائی لکھائی پر زعم

`تھوڑا سا گلہ بھی سن لے۔۔

تھوڑا سا گلہ بھی سن لے ​ اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ قوموں کو قوموں پر، زبانوں کو زبانوں پر ، ادوار کو ادوار پر، کردارد کو کردار پر، انسان کو انسان پر اور پکوان کو پکوان پر ۔ اس میں حتی الامکان غیر منطقی تقابل سے گریز کرنا چاہیئے۔ یعنی انسان کا موازنہ قوم سے نہیں ہوسکتا اور کردار کا موازنہ ادوار سے ممکن نہیں ۔ اب اگر کسی دور کو فضیلت دی گئی ہے تو یہ مطلب نہیں کہ اس دور کی ہر قوم کو فضیلت ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ جس قوم کی زبان کو فضیلت دی گئی ہے اس کے پکوان بھی لذیز ہوں ۔ کھانوں کے بارے میں ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے برِصغیر کے کھانوں کو باقی دنیا پر فضلیت بخشی ہے ۔ بس اتنی سی بات ہمارے دوستوں کی سمجھ میں نہ آسکی۔ عرب شیوخ سے اپنی بے لوث محبت اور لگاؤ کے اظہار کیلئے ان کے پکوان دوستوں کو کھلانے پر تُلے ہوئے ہیں ۔ کل رات بھی انہیں مقاصد کی تکمیل میں "مندی" کی دعوت دی گئی۔ اب قابلِ احترام دوستوں کو یہ کیسے سمجھائیں کہ قبلہ ، یہ مردہ بکرا اور پھیکے چاول ، زیتون کے تیل میں بھگو کر کھانے کے تصور ہی سے جھرجھری طاری ہو جاتی ہے ۔ اوپر سے اس می