نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

جنوری, 2024 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

غزل ردیف مگر

ٕ سنتا رہا اگرچہ میں تیری اگر مگر بدلی نہ ایک بار بھی میری نظر مگر جھکتی ہے جبیں اور نہ ٹھہرتی ہے یہ نگاہ  ہو تیرا در مگر ہو تری رہ گزر مگر؟ جاتی ہیں فلک تک دل عاشق کی دعائیں سنتے ہیں ایک چیز ہے باب اثر مگر کہنے کو تو کہا ہے بہت ہنس کے الوداع کچھ اور کہہ رہی ہے تری چشم تر مگر لوٹائی ہے ازادی قفس کھول کر مجھے وہ حوصلہ مرا وہ مرے بال و پر مگر مخفی تھا میری ذات میں منزل کا پتہ بھی سنتا کہاں تھا جذبہ شوریدہ سر مگر منزل خود اپنے اپ میں تھی سر بسر امام پھرتا رہا یہ شوق جنوں در بدر مگر

نااہل قاضی

ق نااہل قاضی قائد پہ معترض ہے ، ظلم و ستم پہ راضی  صادق امین وہ تھے، یہ شخص ہے فسادی نااہل ہے یہ قاضی  ،  نااہل ہے یہ قاضی اس کو اسی لیے تو فائز کیا گیا ہے  جابر کی چاکری میں گزرا ہے اس کا ماضی نااہل ہے یہ قاضی  ،  نااہل ہے یہ قاضی تاریخ جانتا ہے ، نہ سچ کو مانتا ہے  انصاف کی فراہمی سے اس کو بے نیازی نااہل ہے یہ قاضی  ،  نااہل ہے یہ قاضی محکوم سوچ کا ہے ، آلہ ہے ظالموں کا آئین میں کرے گا مرضی کی در اندازی  نااہل ہے یہ قاضی  ،  نااہل ہے یہ قاضی