نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

جنوری, 2018 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

غزل شمار دو

مرے نالے نے گلشن میں نئی طرزِ فغاں رکھ دی میں گویا کیا ہوا گویا کہ ہر منہ میں زباں رکھ دی اندھیروں کے مقابل اپنی جانِ ناتواں رکھ دی کہ اک جگنونے تمہیدِ چراغِ ضوفشاں رکھ دی کشش اک جستجو کے واسطے شایانِ شاں رکھ دی سجا کر میرے آگے وسعتِ کون ومکاں رکھ دی شکایت کی بِنا رکھ دی حدیثِ دلبراں رکھ دی مچل کر ایک آنسو نے بِنائے داستاں رکھ دی ترے قدموں میں توقیرِ بیانِ عاشقاں رکھ دی " زبانِ بے نگاہ رکھ دی، نگاہء بے زباں رکھ دی " ترس کھا کر مرے اشکوں پہ ملنے کا کیا وعدہ " پھر اک بہتے ہوئے پانی پہ بنیادِ مکاں رکھ دی " ترے جلوؤں کے آگے عشق کی سرمستی کیا لائیں " ذرا سی چیز گھبراہٹ میں کیا جانے کہاں رکھ دی " صفائی دے رہے تھے بے وفائی کی لگے ہاتھوں محبت میں دلیلِ منطقِ سود و زیاں رکھ دی ستم کر کر کے تھکتے ہیں مگر تسکیں نہیں ملتی خلش یہ کس نے سینے میں نصیبِ دشمناں رکھ دی یہ مانا ایک تنکا تک نہیں توڑا تعصب نے مگر برباد تو کر کے فضائے آشیاں رکھ دی اگر مرجھا گئی جانِ چمن انجامِ گل سن کر؟ حکایت کیوں کلی کے سامنے یہ خو نچکاں

غزل شمار ایک

غزل اگر ناکامیِ دل پر کوئی الزام آجائے میری خوئے ملامت کو ذرا آرام آجائے جنوں زادوں کا صحرا سے اگر پیغام آجائے لبِ دریا سے بھی واپس یہ تشنہ کام آجائے سبھی کردار بوجھل ہو گئے میری کہانی کے الہٰی جتنی جلدی ہو سکے انجام آجائے مگر تم دیکھ لو ! حالت ہمارے جیسی ہوتی ہے جب اپنی آئی پر یہ گردشِ ایام آجائے کہ پھر تو داد دینی چائیے محرومیِ دل کی  اگر مقتل سے بھی ، عاشق کوئی ناکام آجائے گواہی آخری ہچکی پہ دے دوں ؟ تم نہیں قاتل یہ جاں ویسے بھی جانی ہے ، کسی کے کام آجائے امامؔ اس شخص کو خوش بخت کہتے ہیں وطن والے جو صبح کو گھر سے نکلے اور سلامت شام آجائے حسن علی امام۔ 

بلا عنوان۔۔۔۔

بلا عنوان۔۔۔۔ جا یار ! دو سگرٹ تو پکڑ لے ، دماغ سن ہو رہا ہے -  اس نے بیزاری سے کہا اور والٹ اپنے قریب بیٹھے ساتھی کے ہاتھ میں رکھ دیا ، غالباً اسے یقین تھا کے اس کے والٹ میں سے سواے دس روپے کے کچھ اور برآمد ہونے والا نہیں - یہ دونوں تقریباً ہم عمر کوئی چوبیس یا پچیس سال کے منحنی جسم اور مدقوق چہروں کے نوجوان تھے چست پتلون اور قمیض  ، جو پانچ سات سال پہلے اُس وقت کے فیشن کے اعتبار سے لیا ہوگا ،میرا بھرپور اندازہ تھا کہ یہ لباس کبھی دھوبی سے شرمندہ نہ ہوا ہوگا اور اب تو یہ باریش بھی ہو چکا تھا اور قدرے بزرگی کی طرف مائل تھا یعنی کپڑوں کہ وہ ریشے جو اہل ایمان کی طرح  اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے پر گامزن تھے اپنا رنگ روپ کھوچکے تھے اور سفید ہو رہے تھے - جس طبقے سے ان دونوں کا تعلق تھا خلاف توقع ان دونوں کے منہ اس طبقے کے اعتبار سے "مروّجہ" نہیں تھے یعنی نہ کوئی پان نہ گٹکا نہ چھالیہ نہ نسوار ، اپنے ساتھی کو اک گونا بیخودی جو اسے دن رات چاہئے ہوتی ہے کی تلاش میں سرگرداں دیکھ کر وہ فوراً اٹھا اور سینٹرل جیل کراچی میں ملاقاتیوں کے لئے بنائی گئی دکان پر پہنچا - دکان پر خاصی

کُلُّ یَوْمٍ عَاشُورَا

کُلُّ یَوْمٍ عَاشُورَا خدا جھوٹ نہ بلوائے، حقیقت یہ ہے کہ اب تو ہماری دلی خواہش بھی”کل یوم عاشورا “کی تائید میں ہی پوری ح ہوتی نظر آتی ہے۔ یعنی کوئی دن ایسا بھی ہو جس دن ہم ان غارت گرانِ چمن یعنی “کے الیکٹرک” کے عذاب سے بچ سکیں۔ صاحبوگرمیوں بھری دوپہروں میں بجلی کی بندش کیا کیا قیامت لیے آتی ہے اس کا اندازہ کچھ ہمارے ہم قبیلہ یعنی بے روزگار افراد ہی کرسکتے ہیں۔ برسرِ روزگار ملازمت پیشہ یا کاروباری لوگ اس عذاب کی باریکوں کو بہرحال نہیں سمجھ سکتے۔ اور جن لوگوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ آدھے اکتوبر میں گرمی کہاں سے آگئی؟ تو غالباًوہ لوگ کراچی کے موسم سے آشنا نہیں ہیں، ان گنہگار آنکھوں نے تو آخری دسمبر تک اس شہر میں گرمی کے وہ مناظر دیکھیں ہیں کہ اسی بنیاد پر اب آنکھوں کو گنہگار لکھنا پڑا۔ غارت گرانِ چمن کی جانب سے عاشورے کے دن وعدہ ہے کہ بجلی کی بندش نہیں کی جائے گی ۔ گویا آج ہمیں اپنے مکان سے وہ بنیادی فوائد حاصل ہوسکیں گے جن کی بنیاد پر بنی نوع انسان نے گھروں کی تعمیر کا آغاز کیا تھا، یعنی دھوپ اور گرمی سے بچاؤ ۔ بے روزگاری ، گرمی،بجلی کی بندش ، دراصل ان تین عناصر میں ظہورِ ترتی

ہم بھی وہیں موجود تھے۔۔

ہم بھی وہیں موجود تھے۔۔ مخفی نہ رہے کہ خدا وند عالم نے ہر بشر کو ابتداََ بے روزگار ہی پیدا فرمایا ہے۔  فدوی اپنی اسی  قابلیتِ فطری کی نگہداشت  میں یارانِ دیرینہ سے بالخصوص رابطہ میں رہا کرتا ہے۔ جب جہاں جس کو ضرورت ہو خادم حاضر ہے۔  یہی وجہ ہے کہ دوستوں کی سنگت کیلئے، ان تمام کاموں میں ، جنہیں عام حالات میں کوئی سلیم الفطرت شخص اہم  نہیں سمجھ سکتا ،  راقم القصور  کو ساتھ رکھا جاتا ہے۔  مثال کے طور پر منڈی سے جانور خریدنا ہو ،  آدھے راستے میں  موٹر سائیکل دھوکہ دے جائے،  شادی ہال کی بکنگ کروانی ہو،  دبئی سے آئے ہوئے پرانے ماڈل کے نئے موبائل فون کو سمجھنا ہو،  بے ڈھنگی غزلوں کی بحر درست کرنی ہو، کسی گمنام یونانی فلسفی کے بارے میں فون پر معلومات درکار ہوں،  محلے کے جھگڑے میں افرادی قوت کی ضرورت ہو یا جھگڑالو دوستوں میں صلح کرانی ہو،  کسی دور کے رشتے دار کو ایئر پورٹ سے لینے جانا ہو، یا مکان کی منتقلی میں سامان ڈھونے کی  رضاکارانہ  خدمت درکار ہو، یہ خاکسار دوستوں کو بے طرح یاد آتا ہے۔ یاد آنے کی اس سے زیادہ معقول وجہ  بظاہر نظر نہیں آتی کہ ہم بے روزگار ہیں اور بمطابق ” بے کار م