نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

کُلُّ یَوْمٍ عَاشُورَا

کُلُّ یَوْمٍ عَاشُورَا


خدا جھوٹ نہ بلوائے، حقیقت یہ ہے کہ اب تو ہماری دلی خواہش بھی”کل یوم عاشورا “کی تائید میں ہی پوری ح ہوتی نظر آتی ہے۔ یعنی کوئی دن ایسا بھی ہو جس دن ہم ان غارت گرانِ چمن یعنی “کے الیکٹرک” کے عذاب سے بچ سکیں۔ صاحبوگرمیوں بھری دوپہروں میں بجلی کی بندش کیا کیا قیامت لیے آتی ہے اس کا اندازہ کچھ ہمارے ہم قبیلہ یعنی بے روزگار افراد ہی کرسکتے ہیں۔ برسرِ روزگار ملازمت پیشہ یا کاروباری لوگ اس عذاب کی باریکوں کو بہرحال نہیں سمجھ سکتے۔ اور جن لوگوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ آدھے اکتوبر میں گرمی کہاں سے آگئی؟ تو غالباًوہ لوگ کراچی کے موسم سے آشنا نہیں ہیں، ان گنہگار آنکھوں نے تو آخری دسمبر تک اس شہر میں گرمی کے وہ مناظر دیکھیں ہیں کہ اسی بنیاد پر اب آنکھوں کو گنہگار لکھنا پڑا۔ غارت گرانِ چمن کی جانب سے عاشورے کے دن وعدہ ہے کہ بجلی کی بندش نہیں کی جائے گی ۔ گویا آج ہمیں اپنے مکان سے وہ بنیادی فوائد حاصل ہوسکیں گے جن کی بنیاد پر بنی نوع انسان نے گھروں کی تعمیر کا آغاز کیا تھا، یعنی دھوپ اور گرمی سے بچاؤ ۔ بے روزگاری ، گرمی،بجلی کی بندش ، دراصل ان تین عناصر میں ظہورِ ترتیب سے جو صدمے اٹھانے پڑتے ہیں اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ عام چھٹیوں میں تو بات علیحدہ ہے ہم دوستوں کی محفل میں شوق سے دن گزار تے ہیں ۔ مگر جن دنوں مذہبی نوعیت کے معاملات عروج پر ہوں ان دنوں میں دوستوں کی محفل بھی خطرے سے خالی نہیں ہوتی، خالص معروضی جذباتیت، عقیدوں سے ضرب کھا کر ایسی دودھاری تلوار کی مانند ہو جاتی ہے کہ نہ اپنا دیکھے نہ بیگانہ ۔ دوسری طرف ہمیں اس بات کا اعتراف ہے کہ ملک ِعزیز کی طرح ہمارے حلقہء دوستاں میں بھی تقریباً تمام کیفیات کے مسلمان پائے جاتے ہیں جو مختلف المسالک، مختلف الفکر بلکہ مختلف الاختلاف واقع ہوئے ہیں۔ یہ احباب ویسے تو بہت روادری سے رہتے ہیں مگر جب کبھی کوئی مذہبی اختلافی معاملہ ہو تب ان کے مباحث دیدنی ہوتے ہیں ۔ ہمارے دوستوں میں تمام مسالک کے لوگ ہیں، کیا شعیہ کیا سنی ، دیوبندی ، وہابی، بریلوی، یہاں تک کہ کچھ لوگوں پر تو رافضی، ناصبی اور خارجی ہونے تک کا شبہ ظاہر کیا جاتا ہے۔ اور ان ایام میں یار لوگوں کا جوش دیدنی ہوتا ہے، “رقیباں گوش بر آواز ” کے مصداق بات بے بات کوئی نہ کوئی پہلو نکال کر آپ کو مخالف گروہ میں شامل قرار دیتے ہیں۔ یادش بخیر پچھلا عاشورا ، دوستوں میں برادرانِ اہلسنت کو یہ یقین دلاتے گزرا تھا کہ حضرت امام حسین کی شہادت میں ہمارا کوئی ہاتھ نہیں ، اور عاشورے کے دن ہمارے مغموم ہونے کی وجوہات قطعاً مختلف ہیں۔ اس سے پہلے ایک مرتبہ کچھ برادرانِ اہل تشیع کو اس بات کا یقین دلانا مشکل ہو گیا تھا کہ کربلا کے واقعہ میں ہمارا کوئی کردار نہیں تھا ، اور یہ جو ہم عاشورے کے دن مسکرارہے ہیں، تو یہ محض اتفاقی اور غیر ارادی ہے، آخر آخر میں ہمیں پُرجوش قسمیں کھانی پڑیں کہ خدا کی قسم ہماری پیدائش ابھی چند دہائیوں پہلے کا واقعہ ہے، نہ ہم وہاں موجود تھے نہ ہمیں طرفین کی جانب سے کسی نوعیت کی مشاورت میں شامل رکھا گیا۔ دستوں میں بہت سوں کو لذیز شربت ٹھکرا کر اور بہت سوں کو بد ذائقہ حلیم کھا کر رام کرنا پڑتا ہے ۔ ہمیں اور عزیز از جان دوست “پیارے میاں” کو عام دنوں میں کئی مرتبہ ایک دوست کے ہاں کی عبرتناک چائے پینے کا حادثہ درپیش آچکا تھا ، ایک مرتبہ عاشورے کے دن ہم انہی کے گھر میں بیٹھے تھے کہ وہ صاحب حلیم لے آئے، ہم کانپ اٹھے۔ چائے تو بہرحال کسی طرح زہر مار کر ہی لیتے مگر حلیم کے فوری نتائج برآمد ہو سکتے تھے، ۔ ہم سہمے ہوئے بچ نکلنے کے راستے سوچ ہی رہے تھے کہ اتنے میں پیارے نے بے جگری سے چمچہ بھرا ، اور ، اگلے ہی لمحے چمچے سے دگنی حلیم اگلتے ہوئے بولے ” ابے ! اس حلیم پر کیا شمر کی نیاز دلوادی ہے؟” ہم نے فوراً اپنی ہتھلی دائیں رخسار پر ٹکا کہ کہہ دیا ” یار کیا بتائیں دو دن سے داڑ میں شدید تکلیف ہے” یقین کیجئے کہ اس کے باوجود ہماری معذرت قبول نہیں کی گئی ۔ یعنی یہ طے ہے کہ آپ اپنی مرضی سے کچھ نہیں کرسکتے ۔ایسے میں عاشورا کے دن اگر بجلی کی بندش ہو جائے تو یوں سمجھ لیں کہ “نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن ” دوستوں کی محفل سے بھاگ کر گھر آئیں اور گھر میں بجلی نہ پائیں تو کیا ہو۔ ع۔
اب تو گھبرا کے یہ کہتےہیں کہ گھر جائیں گے
گھر میں بھی “فین” نہ پایا تو کدھر جائیں گے
آج بجلی کا وعدہ ہے، لہذا ہمیں دوستوں کا خطرہ مول لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی، اگر غارت گرانِ چمن کے دام سے نکلنے کا یہی ایک واحد راستہ بچا ہے تو یہی سہی۔ “فکرِ ہر کس بقدرِ ہمت اوست” ہم معمولی لوگ ہیں ہماری پہنچ بس اسی حد تک ہے ، لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہمارے کہنے سننے سے کیا ہوتا ہے ، کل سے پھر وہی کے الیکٹرک کی بے حس بندشیں اور وہی ہم ، ہمارے کہنے سے کے الیکڑک پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ عرفی مرحوم سے معذرت کے ساتھ قافیہ میں ضروری ترمیم کی گئی ہے تاکہ شعر میں حقیقت نگاری کا رنگ آسکے، -ع،
آوازِ گدا کم نہ کند رزقِ سگاں را


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

آم سے عام کو خطرہ

آم سے عام کو خطرہ اس میں شک نہیں کہ بعض پھلوں کا ذائقہ انسان کو اپنا گرویدہ کر لیتا ہے ۔ مگر یہ کام جس انداز سے حضرت آم نے انجام دیا ہے اس کی نظیر ملنا مشکل ہے ۔ کیا شاہ کیا گدا ۔ کیا شاعر کیا بے نوا ۔ ہر ایک اس نعمت خداوندی پر فریفتہ ہے ۔رنگت خوش بو اور ذائقے میں یہ پھل ایسا ممتاز ہے کہ دیگر پھلوں کا بادشاہ ہے۔ ہر چند کے بادشاہت ان دنوں پسندیدہ طرز حکومت نہیں  رہا ۔ مگر ہمیں امید واثق ہے کہ اگر مملکت نباتات میں جمہوریت بھی آجائے تو صرف نظام ہی بدلے گا چہرے نہیں بدلیں گے ۔ حکمراں تب بھی آم ہی رہے گا ۔ اقتدار کا جھنڈا  اگر ایک ہی ہاتھ میں ہو ۔ تو چاہے بادشاہت ہو۔ آمریت ہو ۔ جمہوریت ہو ۔ حکمراں کا کچھ نہیں بگڑے گا ۔  آم گرمیوں کا پھل ہے ۔ گرمیوں کے اور بھی پھل ہیں مگر کسی کی کیا مجال کے آم  سامنےٹک سکے ۔ آموں کے آنے کے بعد کسی اور پھل پر نظر التفات  کا اٹھنا ہم بےوفائی سے تعبیر کرتے ہیں ۔ ہمیں یاد نہیں کہ کسی سال ہم نے وصال آم اور فراق آم کے درمیان کوئی پھل چکھا تک ہو ۔ باقی سال بھی جو پھل کھایاتو بس یوں سمجھ لیں کہ فراق یار میں جی بہلانے کو کھایا ۔ ایک طرح کی شدت پسندی ہے ۔ مگر کیا کریں

اے آئی ۔رضیہ غنڈوں میں پھنس گئی

اے آئی  ۔رضیہ  غنڈوں میں پھنس گئی   آرٹی فیشل انٹیلی جنس ۔رضیہ  غنڈوں میں پھنس گئی ان دنوں ہمارے چاروں طرف اے آئی یعنی آرٹی فیشل انٹیلی جنس کا شور ہے۔ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ حضرت انسان نے کمپیوٹر کو اتنی ترقی دے دی ہے کہ اب وہ خود ہماری مدد کرنے پر تُل گیا ہے ۔ لیکن یہ بس خیال ہی ہے ۔ خدا گواہ ہے ہمیں تو بےچارے کمپیوٹر پر ترس ہی آتا ہے ۔ اسے اندازہ ہی نہیں ہو رہا کہ کس کے ہتھے چڑھ گیا ہے ۔  ابھی تو اس غریب کو یہ لگ رہا ہے کہ اسے بھی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مل گئی ہے  لہذا وہ لوگوں کے کام آئے گا ۔ مگر وہ دن دور نہیں کہ اسے بھی لگ پتہ جائے گا کہ اس کے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے ۔ میاں یہ انسان  ہے ۔ جب اپنی پر آجائے تو کیا کمپیوٹر کیا فلسفہ کیا سائنس   ۔ سب کو ایک ہی لکڑی سے ہانکتا ہے ۔ ذرا سوچیئے تو سہی ۔ تانبے ۔لوہے ۔اور پلاسٹک سے بنے جادوئی ڈبے کی کیا مجال ہے کہ ہمارے آگے پر مارے۔ ابھی تو بہت پھڑپھڑا رہا ہے ناں ۔ کچھ دن رک جائیں ۔ اسے پتہ پڑ جائے گا کہ واسطہ کس سے پڑا ہے ۔ یہ کمپیوٹر خود چلا چلا کر کہے گا بھائی معاف کر دے  غلطی ہوگئی ۔ تجھے سمجھانے چلا تھا ۔ جن لوگوں کو اپنی پڑھائی لکھائی پر زعم

`تھوڑا سا گلہ بھی سن لے۔۔

تھوڑا سا گلہ بھی سن لے ​ اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ قوموں کو قوموں پر، زبانوں کو زبانوں پر ، ادوار کو ادوار پر، کردارد کو کردار پر، انسان کو انسان پر اور پکوان کو پکوان پر ۔ اس میں حتی الامکان غیر منطقی تقابل سے گریز کرنا چاہیئے۔ یعنی انسان کا موازنہ قوم سے نہیں ہوسکتا اور کردار کا موازنہ ادوار سے ممکن نہیں ۔ اب اگر کسی دور کو فضیلت دی گئی ہے تو یہ مطلب نہیں کہ اس دور کی ہر قوم کو فضیلت ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ جس قوم کی زبان کو فضیلت دی گئی ہے اس کے پکوان بھی لذیز ہوں ۔ کھانوں کے بارے میں ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے برِصغیر کے کھانوں کو باقی دنیا پر فضلیت بخشی ہے ۔ بس اتنی سی بات ہمارے دوستوں کی سمجھ میں نہ آسکی۔ عرب شیوخ سے اپنی بے لوث محبت اور لگاؤ کے اظہار کیلئے ان کے پکوان دوستوں کو کھلانے پر تُلے ہوئے ہیں ۔ کل رات بھی انہیں مقاصد کی تکمیل میں "مندی" کی دعوت دی گئی۔ اب قابلِ احترام دوستوں کو یہ کیسے سمجھائیں کہ قبلہ ، یہ مردہ بکرا اور پھیکے چاول ، زیتون کے تیل میں بھگو کر کھانے کے تصور ہی سے جھرجھری طاری ہو جاتی ہے ۔ اوپر سے اس می