نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

بلا عنوان۔۔۔۔




بلا عنوان۔۔۔۔

جا یار ! دو سگرٹ تو پکڑ لے ، دماغ سن ہو رہا ہے -  اس نے بیزاری سے کہا اور والٹ اپنے قریب بیٹھے ساتھی کے ہاتھ میں رکھ دیا ، غالباً اسے یقین تھا کے اس کے والٹ میں سے سواے دس روپے کے کچھ اور برآمد ہونے والا نہیں - یہ دونوں تقریباً ہم عمر کوئی چوبیس یا پچیس سال کے منحنی جسم اور مدقوق چہروں کے نوجوان تھے چست پتلون اور قمیض  ،جو پانچ سات سال پہلے اُس وقت کے فیشن کے اعتبار سے لیا ہوگا ،میرا بھرپور اندازہ تھا کہ یہ لباس کبھی دھوبی سے شرمندہ نہ ہوا ہوگا اور اب تو یہ باریش بھی ہو چکا تھا اور قدرے بزرگی کی طرف مائل تھا یعنی کپڑوں کہ وہ ریشے جو اہل ایمان کی طرح 
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے پر گامزن تھے اپنا رنگ روپ کھوچکے تھے اور سفید ہو رہے تھے - جس طبقے سے ان دونوں کا تعلق تھا خلاف توقع ان دونوں کے منہ اس طبقے کے اعتبار سے "مروّجہ" نہیں تھے یعنی نہ کوئی پان نہ گٹکا نہ چھالیہ نہ نسوار ، اپنے ساتھی کو اک گونا بیخودی جو اسے دن رات چاہئے ہوتی ہے کی تلاش میں سرگرداں دیکھ کر وہ فوراً اٹھا اور سینٹرل جیل کراچی میں ملاقاتیوں کے لئے بنائی گئی دکان پر پہنچا - دکان پر خاصی بھیڑ تھی مگر وہ جلدی واپس آگیا " ابے نئی چل لا یہ نوٹ!! وہ بول لا اے پھٹا وا ہے " اس خالصتاً بگڑے ہوے لہجے میں اس اندوھناک خبر پر   برجستگی سے تبصرہ کیا گیا اول تو یہ کہ دکاندار کے کردار پر غیر اخلاقی شک کا اظہار کیا دوم تحقیقِ شجرہ نسب کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی بہرحال الفاظ اپنی اصل میں ناقابل اشاعت تھے ،  امید ہےکہ آپ حضرات اصل الفاظ تک اپنی قوت تخیل سے خود ہی پہنچ جائیں گے اور آپکا لطف برباد نہ ہوگا - ابھی یہ منظر چل ہی رہا تھا کہ فضا میں ایک طلسماتی نغمہ گونجا - سمجھ میں تو نہیں آیا مگر اس میں جا بجا " محمد ، غلام اور خان" کے الفاظ تھے وہ بھی اس حسنِ ترتیب سے وارد ہوتے تھے کہ اسکے آگے پیچھے کیا کہا گیا کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا ، البتہ اس نغمے پر لبیک کہتے ہوے چند سفید ریش بزرگ اسی بھیڑ سے نمودار ہوئے اور مشرقی دیوار میں نصب آہنی دروازے پر لپکے کچھ دیر وہاں کھڑے رہے پھر داروغہ نے ملاقات کے لئے اندر جانے دیا - دروازے سے نامناسب فاصلے پر لگے سیمنٹ کے بنچ پرکچھ بڑی بیاں،  بچپنے کی سہیلیوں کی طرح بیٹھی تھیں - یہ تینوں عمر رسیدہ و جہاں دیدہ خواتین معصوم بچیوں کی طرح محوِ گفتگو تھیں اور انہیں قرب و جوار کی سرے سے کوئی پروا نہیں تھی - منتظمین حوالات کی کیفیت بھی ان خواتین کے حوالے سے یہی تھی ، البتہ میں غور سے انکی باتیں سن رہا تھا - " آپ صبح جلدی آجایا کریں نا پھر جلدی باری آے گی " نیلے کپڑوں پر بڑا سا سفید دوپٹہ لئے ناک پر عینک ٹکائے کسی سرکاری اسکول کی ریٹائرڈ  استانی معلوم ہوتی تھیں اور اپنی پیاری سہیلی کو انتہائی کارآمد گُر بتا رہی تھیں مگر اس پیاری سہیلی کو وہ دیکھ نہیں سکتی تھیں کیونکہ وہ سَر سے پیر تک ایک سیاہ برقعے میں لپٹی بیٹھی تھیں- جب وہ بات سمجھ گئیں تو جواب دیا "کدھر سے جلدی آے گا ؟ خو کام نئیں کرے گا ، ام رات کا آئے گا تم بولو خو ہمارے کو چھوڑتا ہے ؟" اس پر تیسری نے کہا " چوڑینگا کیسا نئیں ؟ یہ حا کومت کا پرچی لیا ہم نے ! ہمارے کو چھوڑنا پڑینگا " میلی کامدار قمیض اور اس پر کالی چادر جو داغ دھبوں سے اٹی پڑی تھی سر پر اس قرینے سے بندھی تھی کہ گرتی نہ تھی -  عام خواتین کی گفتگو کی طرح ان خواتین کا موضوعِ گفتگو کیا تھا یہ بھی ایک جملے میں بیان نہیں کیا جا سکتا - بہرحال یہ طے ہے کہ یہ بہت انہماک سےاس بےترتیب مذاکرے کو آگے بڑھانے میں مصروف تھیں-وہی پراسرار نغمہ پھر گونجا - اسی طرح کے افراد آگے بڑھے ، سب کامیاب و کامران ہوئے مگر ایک بڑے میاں جو اوسط انسانی عمر سے پچیس سال پہلے ہی کامیابی سے گزر آئے تھے حتی المقدور چیختے چلاتے واپس آرہے . کیفیت یہ تھی کہ ہم ان کا ہلنا جھلنا تو بہت دور سے دیکھ رہے تھے مگر آواز شاید قریب کھڑے دو افراد سے آگے نہیں پہنچ رہی تھی - خیر رفتہ رفتہ وہ وقت بھی آ ہی گیا جب بزرگوار عشاریہ نو (٠.٩) کلو میٹر فی ہفتہ کی رفتار سے گزرتے ہوے تیسری بنچ پر بیٹھ گئے - بیٹھتے ہی اپنے دونوں گھٹنے تھام کر کربناک انداز میں دھاڑے ، جو دائیں اور بائیں بیٹھے دونوں افراد نے سنا مجھے یہ تسلی تھی کہ کراماً کاتبین کے علاوہ  "آدمی کوئی ہمارا دم تحقیر بھی تھا" راوی کہتا ہے کہ اس نے کپکپاتی بنچ پر جو آخری انسانی آواز سنی وہ یہ تھی  " ام تمارا سر توڑے گا !!تم نا انساپی کرے گا ام چوڑے گا نئیں " اور واقعی بزرگوار نے بہت دیر تک اپنے گُھٹنے نہیں چھوڑے - کچھ دیر کے بعد جب بنچ قدرے جمود سے آشکار ہوئی  ، وہی طلسماتی آواز پھر گونجی اور بنچ حالتِ سابقہ پر آگئی ، اس مرتبہ بزرگوار نے پھر رخت سفر بندھا مگر اٹھ نہ سکے کچھ بڑبڑا کر وہیں بیٹھ رہے - والٹ والے نوجوان نے سبیل سے منرل واٹر کی ایک درمیان سے کٹی بوتل میں پانی لا کر بزرگوار کو دیا کہ یہاں پانی پینے کا عوامی طریقہ یہی ہے - اور اسی ادھ کٹی بوتل کی "گلاس کہاں ہیں ، گلاس کہاں ہے" کہہ کر ڈھونڈ بھی مچتی ہے - اس لڑکے نے بزرگوار کو میرے نزدیک کی بنچ پر بیٹھا دیا -میرے ایک طرف تو بزرگوار صورت سیماب مضطرب تھے ، دوسری طرف وہی والٹ والا نوجوان اور بلکل پیچھے وہ تین ننھی ننھی بوڑھی عورتیں پورے ماحول سے بےنیاز گفتگو میں مصروف- میں اس نوجوان کی طلب کو جانتا تھا اور میرے پاس رقم بھی موجود تھی مگر میں اپنی نیکی کا بوجھ اس کی عزت نفس کے کاندھے پر رکھنا  نہیں  چاہتا تھا - خیر کسی ترکیب سے میں نے ایک سلامت نوٹ کے بدلے وہ پھٹا ہوا نوٹ اس سے لے لیا - سگرٹ سُلگاتے ہی اس نے گفتگو کا آغاز کر دیا ، اسکی  دل جلی گفتگو  اور سگرٹ کا دھواں ، دوسو سالہ سفر کے بعد میؔر کا شعر مجسم میرے سامنے تھا

" دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے "

پہلے اُس نے بتایا کہ وہ نوٹ کیسے پھٹا " ابے پچاس روپے پڑے تھے مرے پاس ، گیٹ کا پولیس والا اڑی کرنے لگا، مے نے بولا بھائی تو ادے رکھ لے ادے تو وافسی کر، بولا ترے سے حساب کرونگا کیا مے ؟ مے نے بولا بھائی تو بیس تو وافسی کر کارایا (کرایہ) دو آدمی کا - ابے دیتے دیتے پھر اندر رکھ رہا ہے - مے نے اسکے ہاتھ سے لئے نہ ایسے تو پھٹ گیا - مے نے دل مے بولا استاد ! پھٹا وا بھی نہی چھوڑونگا ترے پاس " میں نے پوچھا "تو اب واپس کیسے جاؤ گے ؟" اُس  نے اپنی دونوں ٹانگیں  پکڑ کر چمک کےکہا " ابے استاد اپنا کوئی مسئلہ تھوڑی ہے یہ ڈبلیو گیارہ ہے نہ ہاہاہاہاہاہا"  وہ اتنا کِھل کِھلا کے ہنسا کہ مجھے بھی ہنسی آگئی اور وہ بزرگ بھی مسکرانے لگے - یہاں آئے کیوں ہو ؟ میرے استفسار پر اس نے بتایا "استاد مرے ساتھ کا لڑکا ہےاس نے چنگچی (رکشہ) بھیڑ دیا تھا ، اس سے ملنے آئے ہیں" میں نے پوچھا تو کیا کوئی جانی نقصان ہوا تھا چنگچی کے اس حادثے میں ؟ " ابے نئی استاد!  وہ فارمی انڈا ہوتا ہے نا ، اس سے منہ ماری ہو گئی تھی اُدھر ہی موبائل کھڑی تھی انہوں نے اٹھا کر اِدھر ڈال دیا" اس نے صاف صاف انداز میں بتایا تو میں نے اور کُریدا  " منہ ماری پر جیل کیسے ہو گئی؟" کہنے لگا " استاد ہمارے بندے کو اٹھا کر بند کر دیا پولیس نے ، اسکے باپ کے پاس جوڑ توڑ کیلئے کچھ تھا نہیں انہوں نے سامان لگا دیا بندے پر ، وہ کاٹ رہا ہے " اب بات میری سجھ میں آگئی کہ ناجائز اسلحے کا جھوٹا مقدمہ قائم کیا گیا ہے اور اس پر سزا بھی ہو گئی ہے - مگر یہ تو اس نوجوان کا بیان تھا، اور اپنے دوست کے بارے میں یہی بیان کیا جاسکتا ہے - میں نے کہا کچھ نہ کچھ تو حقیقت بھی ہوگی بلاوجہ کوئی کیوں ناانصافی کرنے لگا ، اس جملے کا جواب پیشتر اس نوجوان کے صورت سیماب مضطرب بزرگوار نے دیا " کیا بات کرتا ہے ، یہ نا انساپی نئیں کرے گا ؟۔۔۔ ظالم اے خدا کا کسم ، امرا پانچ لمبر ہے ابی امارے کو اندر نئیں چھوڑتا ہے۔۔۔ ام بوڑا آدمی ہے خدا کا کسم امرا ٹانگ کام نئیں کرے گا - ابی تم دیکو کتنا بندہ اندر جاتی ہے امارے کو بولتی ہے تمارا لمبر نئیں آیا چاچا۔۔۔۔۔ ام بوڑا آدمی ہے خدا کا کسم......." لمبی گھنی سفید داڑھی بھیگتی جا رہی تھی ، بزرگوار کا پورا وجود ہچکیوں کے جھٹکے سے ہل رہا تھا ،چہرہ لال سرخ ہو گیا تھا ، چھوڑے ماتھے پر عمودی سمت میں جاتی دو رگیں اُبھر رہی تھیں اب انکی تھرتھراہٹ ضعیفی کی وجہ سے نہیں بلکہ شدتِ غم سے تھی اپنے آنسوں کو پوچھتے ہوئے وہ پھر گویا ہوئے " ابی ام پیسہ دے گا ابی امارے کو اندر چوڑتا تم دیکو ........... یہ امارے کو دَکا مارتی ہے ام اسکا سر توڑے گا خدا کا کسم.........." ان کے آنسو روک ہی نہیں رہے تھے یہ کفیت کسی انسان کیلئے قابل برداشت نہیں ہو سکتی .... کسی نہ کسی درجے میں انسان تو میں بھی ہوں میں نے موضوع بدلنا چاہا ... آپ کس سے ملنے آئے ہیں یہاں ؟ میرا سوال سن کر وہ مزید بلکنے لگے ..." خو امارا پوتا ہے ..... اسکا ٹانگ میں گولی  مارا ہے ........ نا انساپی کرتا ہے ........" وہ مسلسل بلک رہے تھے ..." وہ ایسا تنکا ہے تنکا ..... اسکو گھر سے نکالا ہے ..... اسکا باپ پہلا مرا ہے اُدھر گاؤں میں ..... یہ بچہ ہے چھوٹا ام اس کو ادھر لایا اسکا ماں کو بی لایا ....... ام دادا ہے اسکا ......."  ان ادھورے  بے ربط جملوں کو سمجھنے میں مجھے ذرا برابر بھی دقّت نہیں تھی  کہانی پوری طرح سمجھ آ رہی تھی ........" بولتا ہے امارے کو تین لاکھ روپیہ دو ......... ابی ام کدھر سے لائے ......." وہ اپنے گھٹنے کے درد سے بےحال تھے کپکپاتے ہاتھوں سے مسلسل اپنے آنسوں پوچھتے اور پیر دباتے ... اتنے میں وہ درد ناک نغمہ پھر گونجا اب کی بار مجھے وہ کافی حد تک سمجھ آرہا تھا داروغہ حوالات قیدیوں کے نام پکار رہا تھا .... "محمّد فیصل انصاری ........ غلام عباس ولد غلام حسین....... نایاب خان ولد گل بادشاہ .........." پھر مجمع متحرک ہوا اور چند افراد آگے بڑھے -مجھ میں نہ اور کچھ سننے کی ہمت تھی نہ دیکھنے کی ، مگر کچھ چیزیں انسانی اختیار سے باہر ہوتی ہیں مجھے سننا پڑا....." اسے گھر سے نکال کر گولی مارا ...... بےقصور ہے خدا کا کسم....... ابی اسکا ٹانگ پورا خراب ہے ..." پھر آنسوں کی جھڑی .... مجھے کچھ کچھ اندازہ تو تھا کہ بزرگوار کس کا درد اپنی ٹانگ میں محسوس کر رہے ہیں ۔ انھیں کیوں آرام نہیں آرہا ، کیوں  چین نہیں پڑتا - ".... بولتا ہے اس نے مقابلہ کیا ہے ....... وہ تنکا ہے .... وہ بندوق کدھر سے اٹھاۓ گا ........ وہ اپنے گھر میں سویا تھا ادھر سے لے کر گیا ........... پورا سیی (صحیح) لے کر گیا ہے ....... وہ چلتا ہوا گیا ہے ........ ابی بولتا ہے اسکو مقابلے کا گولی لگا ہے ........." ایک نحیف کمزور لاغر بیمار بوڑھا اپنی پوری توانائی صرف کر چکا تھا - وہ خاموش ہو گئے .. وہ والٹ والا نوجوان سنجیدگی سے سر جھکاے بیٹھا تھا - بزرگوار پر طاری زلزلہ بھی ساکت ہو چکا تھا - ہماری بنچ پر ایک سکوت چھا گیا تھا .. وہی آواز پھر بلند ہوئی ... "... محمد .......... غلام ....... خان ....." اس بار پکّی سہیلیوں کی صف میں کچھ ہلچل ہوئی - چھوٹے چھوٹے آئینوں سے سجی قمیض پر کالی دھبے دار چادر کو درست کرتی منجلی سہیلی اُٹھی "امارے بیٹے کا نام لیا ہے ابھی ہمارے کو چھوڑینگا " منجلی سہیلی کی آنکھیں چمک رہی تھیں وہ بڑی عجلت سے روانہ ہوئیں چادر کی گرہ سے بندھے کچھ نوٹ جلدی جلدی کھولنے لگیں اور پھر مشرقی دیوار میں  نصب آہنی دروازے کے گرد لگی بھیڑ میں گم ہو گئیں - منجلی کی کامیابی کیسے ہوئی اس کا جواب آنچل کی اس گرہ میں بندھا تھا جو پیچھے رہ جانی والی سہیلیوں نے بخوبی دیکھا - چھٹکی بی نے تو ہاتھ کے اشارے سے برأت کا اعلان کیا مگر بڑکی بی نے الفاظ کا سہارا لیا " اب انشااللہ جلدی باری آے گی " لہجے سے صاف ظاہر تھا اُن کا یقین متزلزل ہے ، اور وہ صرف خجالت مٹانا چاہتی ہیں جو انہوں نے منجلی کی کامیابی پر بلاوجہ محسوس کی - کچھ دیر خاموشی کے بعد یا تو پچھلی خجالت مٹانے کی از سر نو کوشش میں یا فقط خاموشی سے ازلی دشمنی کی بنیاد پر بڑکی بی پھر گویا ہوئیں " یہ آج تو بہت ہی وقت ہوگیا ... آج کوئی بڑا افسر بھی آیا ہے اندر .. وہ بتا رہے تھے ... اس لئے زیادہ وقت لگ رہا ہے " چھٹکی بی کی برداشت سے باہر ہونے لگا ضبط کے سارے پیمانے لبریز تھے وہ کھل کر اپنی شکست اور کمزوری کو قبول کر چکی تھیں " خو نئیں کوئی اپسر آئے گا جوٹ بولتا اے .... تم پیسہ دے ابی اندر چوڑے گا ....... دیکا وہ گیا نا " ان کو منجلی بی کے ملاقات کے لئے جانے کی جو وجہ نظر آرہی تھی وہ مجھے سمجھ نہیں آئی ، منجلی بی کے قیدی کا نام پہلے پکارا گیا ، پیسے وہ بعد میں نکال رہی تھیں ... میں کھلے عام رشوت کے اس طلسماتی چکر کو سمجھ نہیں پا رہا تھا -منجلی بی ملاقات کرکے واپس آ چکی تھیں ہاتھ میں تین کوری پرچیاں تھامے وہ میرے پاس آئیں " اس پہ ہمارا سامان لکھو " تینوں پرچیاں مجھے تھماتے ہوے انہوں نے مجھے حکم دیا - مجھے اس بات کی خوشی تھی کہ انہوں نے مجھے بہت اپنائیت سے حکم صادر فرمایا تھا ، خود وہ میرے آگے زمین پر بیٹھنے لگیں .... میری روح فنا ہو گئی .. آپ یہاں بیٹھیں .... میں نے تیزی سے اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے ہوے کہا وہ بولیں " نہیں تم بیٹھو ، ہمارے کو جلدی لکھ کہ دو" میں نہیں بیٹھا مجبوراً اُنھیں بنچ پر بیٹھنا پڑا وہ اس عمل کی عادی لگ رہی تھیں کہ معمولی سے معمولی کام کیلئے منت سماجت کی آخری حدوں کو آجائیں - اپنا حق وصول کرنے کیلئے رشوتیں دے کر بھی وہ حقارت آمیز رویوں سے گزرتی ہیں اور شاید اب انھیں اس کی عادت ہو گئی ہے ........ میں نے قیدی کا نام اور سامان کی تفصیل پوچھی اور فہرست بنا کر لکھنے لگا قیدی کو اگر کچھ سامان دینا ہو تو سامان کی تین الگ الگ فہرستیں بنتی ہیں ابتدا میں قیدی کا نام معہ ولدیت تحریر کیا جاتا ہے - ایک تو یہ کہ سامان کی فہرست خاصی مختصر تھی اس غرض سے اور دوسرا مجھے خود بھی اشتیاق تھا کہ منجلی بی سے کچھ باتیں کروں میں نے پوچھا چھ  روٹیاں  ، سالن،صابن اور دو امرود .. بس یہی سامان ہے ؟ وہ بولیں " ہاں ابھی اور کیا دے گا ؟" میں نے گفتگو کا سلسلہ آگے بڑھایا چھ روٹیاں کب تک چلیں گی ؟ وہ مسکرا کر کہنے لگیں " چھ دینگا تو اسکو چار ملینگا" اور یہ دو امرود ؟ میں نے پوچھا وہ کچھ نہیں بولیں میں نے پھر ہمت کی .. قیدی آپ کا بیٹا ہے ؟ .. " ہاں ہمارا بیٹا ہے ، گینگ وار کا بول کے پکڑا اسکو ابھی سال ہو گیا چھوڑتا نئیں ہے " یہ کہتے ہوے انکی آنکھیں نم تھیں مگر لہجہ بدستور سخت تھا - میں نے سلسلہ کلام کو طول دینا چاہا ... تو آپ کا بیٹا گینگ وار کا مجرم تھا ؟ اتنی دیر میں میں نے تینوں فہرستیں تیار کر لی تھیں .. " مجرم کو پکڑینگا ؟ ابھی اتنا پائرنگ ہوتا ہے ہمارا علاقے میں ، سارا مجرم پکڑینگا نا ؟  غرق ہوینگا یہ لوگ ... ہمارا بات لکھو ... ایسا زولم (ظلم) ہے نہ تمھارے کو کیا پتا  ہے " وہ تقریباََ مجھے ڈانٹ رہی تھیں ، میرے ہاتھ سے پرچیاں چھین کر وہ اس کھڑکی کی طرف بڑھ گئیں جہاں سے قیدیوں کو سامان بھجوایا جاتا ہے
میں نے بڑکی بی سے پوچھا آپ کا نمبر کیا ہے وہ چونک کر بولیں "... نہیں نہیں .. ابھی آ جائے گا ... کبھی کبھی رش ہوتا ہے نا تو دیر لگتی ہے" یہ تسلی وہ اپنے اپ کو بار بار دیے جا رہی تھیں . چھٹکی بی پھر برداشت نہ کر سکیں " خو خدا غارت کرے گا ظالم یہ ہمارے کو نئیں چوڑے گا الله اس کو پکڑے ہمارا طاقت نئیں ہے " بڑکی بی اپنے انداز سے اس میں شامل ہو ہی گئیں " بھئی جیسا یہ کریں گے ویسا سامنے آئے گا انکے .. انتہا کردی ہے - انکے بچے پکڑے ہونا تب پتا چلے۔۔ الله انہیں موت نہیں دیتا ..... دیکھنا کیسا عذاب پڑے گا ان پر ... بغیر پیسے کے تو ذلیل کر دیتے ہیں انسان کو .."  اب ظہر کی  آذان ہو رہی تھی .. اسکے بعد پھر وہی داروغہ کی آواز بلند ہوئی - دونوں سہیلیوں نے موڑ کہ دیکھا تک نہیں ...... میں باہر آگیا میری قوت برداشت جواب دے چکی تھی - میں رشوت کا یہ چکر بھی سمجھ گیا تھا جو جیل کے مرکزی دروازے سےتلاشی کے نام پر شروع ہوتا ہے پھر انتظار گاہ میں داخلے کے وقت اور پھر ہر ادھے گھنٹے کی پکار میں اپنا نام پہلے لئے جانے سے ہوتا ہوا قیدی تک سامان پہچانے تک جاری رہتا ہے- میں اس نظام کی ایک کڑی کو سمجھا تھا .. پھر لوگوں کی باتوں پر توجہ کی تو میری نظر اس پوری زنجیر پر پڑی جس میں میں نے عوام کو جکڑا ہوا پایا میرے دماغ پراندھیرا چھا گیا بس چند جملوں کی بازگشت سنائی دیتی رہی ......... بھائی تو ادے رکھ لے ادے تو وافسی کر............................................ ام بوڑا آدمی ہے خدا کا کسم.........................غرق ہوینگا یہ لوگ ... ہمارا بات لکھو ................الله انہیں موت نہیں دیتا ..... دیکھنا کیسا عذاب پڑے گا اِن پر ...

"... محمد .......... غلام ....... خان ....."....

تبصرے

  1. دل کو ہلا کر رلھ دینے والی عمدہ تحریر اور پولیس رشوت خوری کی عادی ہے یہ جملہ سنا بہت لیکن اس تحریر نے الفاظ کو محسوس کروایا۔ بہت خوب

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

آم سے عام کو خطرہ

آم سے عام کو خطرہ اس میں شک نہیں کہ بعض پھلوں کا ذائقہ انسان کو اپنا گرویدہ کر لیتا ہے ۔ مگر یہ کام جس انداز سے حضرت آم نے انجام دیا ہے اس کی نظیر ملنا مشکل ہے ۔ کیا شاہ کیا گدا ۔ کیا شاعر کیا بے نوا ۔ ہر ایک اس نعمت خداوندی پر فریفتہ ہے ۔رنگت خوش بو اور ذائقے میں یہ پھل ایسا ممتاز ہے کہ دیگر پھلوں کا بادشاہ ہے۔ ہر چند کے بادشاہت ان دنوں پسندیدہ طرز حکومت نہیں  رہا ۔ مگر ہمیں امید واثق ہے کہ اگر مملکت نباتات میں جمہوریت بھی آجائے تو صرف نظام ہی بدلے گا چہرے نہیں بدلیں گے ۔ حکمراں تب بھی آم ہی رہے گا ۔ اقتدار کا جھنڈا  اگر ایک ہی ہاتھ میں ہو ۔ تو چاہے بادشاہت ہو۔ آمریت ہو ۔ جمہوریت ہو ۔ حکمراں کا کچھ نہیں بگڑے گا ۔  آم گرمیوں کا پھل ہے ۔ گرمیوں کے اور بھی پھل ہیں مگر کسی کی کیا مجال کے آم  سامنےٹک سکے ۔ آموں کے آنے کے بعد کسی اور پھل پر نظر التفات  کا اٹھنا ہم بےوفائی سے تعبیر کرتے ہیں ۔ ہمیں یاد نہیں کہ کسی سال ہم نے وصال آم اور فراق آم کے درمیان کوئی پھل چکھا تک ہو ۔ باقی سال بھی جو پھل کھایاتو بس یوں سمجھ لیں کہ فراق یار میں جی بہلانے کو کھایا ۔ ایک طرح کی شدت پسندی ہے ۔ مگر کیا کریں

اے آئی ۔رضیہ غنڈوں میں پھنس گئی

اے آئی  ۔رضیہ  غنڈوں میں پھنس گئی   آرٹی فیشل انٹیلی جنس ۔رضیہ  غنڈوں میں پھنس گئی ان دنوں ہمارے چاروں طرف اے آئی یعنی آرٹی فیشل انٹیلی جنس کا شور ہے۔ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ حضرت انسان نے کمپیوٹر کو اتنی ترقی دے دی ہے کہ اب وہ خود ہماری مدد کرنے پر تُل گیا ہے ۔ لیکن یہ بس خیال ہی ہے ۔ خدا گواہ ہے ہمیں تو بےچارے کمپیوٹر پر ترس ہی آتا ہے ۔ اسے اندازہ ہی نہیں ہو رہا کہ کس کے ہتھے چڑھ گیا ہے ۔  ابھی تو اس غریب کو یہ لگ رہا ہے کہ اسے بھی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مل گئی ہے  لہذا وہ لوگوں کے کام آئے گا ۔ مگر وہ دن دور نہیں کہ اسے بھی لگ پتہ جائے گا کہ اس کے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے ۔ میاں یہ انسان  ہے ۔ جب اپنی پر آجائے تو کیا کمپیوٹر کیا فلسفہ کیا سائنس   ۔ سب کو ایک ہی لکڑی سے ہانکتا ہے ۔ ذرا سوچیئے تو سہی ۔ تانبے ۔لوہے ۔اور پلاسٹک سے بنے جادوئی ڈبے کی کیا مجال ہے کہ ہمارے آگے پر مارے۔ ابھی تو بہت پھڑپھڑا رہا ہے ناں ۔ کچھ دن رک جائیں ۔ اسے پتہ پڑ جائے گا کہ واسطہ کس سے پڑا ہے ۔ یہ کمپیوٹر خود چلا چلا کر کہے گا بھائی معاف کر دے  غلطی ہوگئی ۔ تجھے سمجھانے چلا تھا ۔ جن لوگوں کو اپنی پڑھائی لکھائی پر زعم

`تھوڑا سا گلہ بھی سن لے۔۔

تھوڑا سا گلہ بھی سن لے ​ اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ قوموں کو قوموں پر، زبانوں کو زبانوں پر ، ادوار کو ادوار پر، کردارد کو کردار پر، انسان کو انسان پر اور پکوان کو پکوان پر ۔ اس میں حتی الامکان غیر منطقی تقابل سے گریز کرنا چاہیئے۔ یعنی انسان کا موازنہ قوم سے نہیں ہوسکتا اور کردار کا موازنہ ادوار سے ممکن نہیں ۔ اب اگر کسی دور کو فضیلت دی گئی ہے تو یہ مطلب نہیں کہ اس دور کی ہر قوم کو فضیلت ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ جس قوم کی زبان کو فضیلت دی گئی ہے اس کے پکوان بھی لذیز ہوں ۔ کھانوں کے بارے میں ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے برِصغیر کے کھانوں کو باقی دنیا پر فضلیت بخشی ہے ۔ بس اتنی سی بات ہمارے دوستوں کی سمجھ میں نہ آسکی۔ عرب شیوخ سے اپنی بے لوث محبت اور لگاؤ کے اظہار کیلئے ان کے پکوان دوستوں کو کھلانے پر تُلے ہوئے ہیں ۔ کل رات بھی انہیں مقاصد کی تکمیل میں "مندی" کی دعوت دی گئی۔ اب قابلِ احترام دوستوں کو یہ کیسے سمجھائیں کہ قبلہ ، یہ مردہ بکرا اور پھیکے چاول ، زیتون کے تیل میں بھگو کر کھانے کے تصور ہی سے جھرجھری طاری ہو جاتی ہے ۔ اوپر سے اس می