نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

غزل ردیف مگر

حالیہ پوسٹس

نااہل قاضی

ق نااہل قاضی قائد پہ معترض ہے ، ظلم و ستم پہ راضی  صادق امین وہ تھے، یہ شخص ہے فسادی نااہل ہے یہ قاضی  ،  نااہل ہے یہ قاضی اس کو اسی لیے تو فائز کیا گیا ہے  جابر کی چاکری میں گزرا ہے اس کا ماضی نااہل ہے یہ قاضی  ،  نااہل ہے یہ قاضی تاریخ جانتا ہے ، نہ سچ کو مانتا ہے  انصاف کی فراہمی سے اس کو بے نیازی نااہل ہے یہ قاضی  ،  نااہل ہے یہ قاضی محکوم سوچ کا ہے ، آلہ ہے ظالموں کا آئین میں کرے گا مرضی کی در اندازی  نااہل ہے یہ قاضی  ،  نااہل ہے یہ قاضی

سہرا

 سہرا رحمتِ خالقِ گلشن سے معطر سہرا سنتِ نورِﷺ ہدایت سے منور سہرا دادا دادی کی مرادوں کا ہے محور سہرا نانا نانی کے ہے ارماں کا مقدر سہرا سایہء شفقتِ انصار کے اندر سہرا ہر اک اندیشہء الام سے باہر سے سہرا گویا ایک ابر گوہر بار کے اندر سہرا دست ہر حزنِ بلا کیش سے باہر سہرا چشمِ مادر کا نگیں قلب کا گوہر سہرا رشک میں دولت کونین سے بڑھ کر سہرا لائقِ الفت و چاہت ہے سراسر سہرا لا کے رکھا گیا کس سر کے برابر سہرا سب نگاہوں کو محبت سے جکڑ لیتا ہے ورنہ دیکھیں تو نہ جادو ہے نہ منتر سہرا آگے جاتی ہے ستاروں سے ستارہ کی دعا ہو مبارک سدا رشکِ مہ و اختر سہرا خوب سجتا ہے جواں بخت جواں سال انس دل نشیں جان پدر آج تیرے سر سہرا آج شہہ بالے بنے ہیں جو عمر عبداللہ کل کو لہرائے گا خود ان کے بھی سر پر سہرا تا قیامت ہو امیمہ کے سر کا تاج انس تا قیامت رہے اس سر پہ میسر سیرا لب پہ زہرہ کے دعا ہے رہے تا عمر، امام تاب میں رونق خورشید  کا ہمسر سہرا

دو غزلہ

 دو غزلہ دیا اک جل رہا ہے مسلسل دغدغہ ہے تصور بھی نشہ ہے ندامت بے خطا ہے خیال بزم جاناں میرا عشرت کدہ ہے مجازی ہیں یہ رسمیں  حقیقت اشتہا ہے مسافر خود ہے منزل رکاوٹ راستہ ہے غلط ہے سارا منظر حقیقت ماورا ہے ہوئی خواہش سے حسرت زوال ارتقا ہے چمن آرا ہے وحشت جنوں نغمہ سرا ہے خیال یار بھی اب  امام اک حادٹہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہی دل دل ہوا ہے جو جل کر بجھ گیا ہے نجانے کیا ہوا ہے ہر اک روٹھا ہوا ہے تمہارے دوست ہیں ہم ہمارا حوصلہ ہے ہے طوفان حوادث خدا ہی ناخدا ہے حقیقت جان لے گا جو دل سے سوچتا ہے نظر آئے تو دیکھو سبھی کچھ واہمہ ہے سماجی بوجھ ہے بس  معاشی بوجھ کیا ہے میں پاکستان میں ہوں یہاں جینا سزا ہے امام اپنے مقابل خود اپنا ضابطہ ہے

اے آئی ۔رضیہ غنڈوں میں پھنس گئی

اے آئی  ۔رضیہ  غنڈوں میں پھنس گئی   آرٹی فیشل انٹیلی جنس ۔رضیہ  غنڈوں میں پھنس گئی ان دنوں ہمارے چاروں طرف اے آئی یعنی آرٹی فیشل انٹیلی جنس کا شور ہے۔ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ حضرت انسان نے کمپیوٹر کو اتنی ترقی دے دی ہے کہ اب وہ خود ہماری مدد کرنے پر تُل گیا ہے ۔ لیکن یہ بس خیال ہی ہے ۔ خدا گواہ ہے ہمیں تو بےچارے کمپیوٹر پر ترس ہی آتا ہے ۔ اسے اندازہ ہی نہیں ہو رہا کہ کس کے ہتھے چڑھ گیا ہے ۔  ابھی تو اس غریب کو یہ لگ رہا ہے کہ اسے بھی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مل گئی ہے  لہذا وہ لوگوں کے کام آئے گا ۔ مگر وہ دن دور نہیں کہ اسے بھی لگ پتہ جائے گا کہ اس کے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے ۔ میاں یہ انسان  ہے ۔ جب اپنی پر آجائے تو کیا کمپیوٹر کیا فلسفہ کیا سائنس   ۔ سب کو ایک ہی لکڑی سے ہانکتا ہے ۔ ذرا سوچیئے تو سہی ۔ تانبے ۔لوہے ۔اور پلاسٹک سے بنے جادوئی ڈبے کی کیا مجال ہے کہ ہمارے آگے پر مارے۔ ابھی تو بہت پھڑپھڑا رہا ہے ناں ۔ کچھ دن رک جائیں ۔ اسے پتہ پڑ جائے گا کہ واسطہ کس سے پڑا ہے ۔ یہ کمپیوٹر خود چلا چلا کر کہے گا بھائی معاف کر دے  غلطی ہوگئی ۔ تجھے سمجھانے چلا تھا ۔ جن لوگوں کو اپنی پڑھائی لکھائی پر زعم

آم سے عام کو خطرہ

آم سے عام کو خطرہ اس میں شک نہیں کہ بعض پھلوں کا ذائقہ انسان کو اپنا گرویدہ کر لیتا ہے ۔ مگر یہ کام جس انداز سے حضرت آم نے انجام دیا ہے اس کی نظیر ملنا مشکل ہے ۔ کیا شاہ کیا گدا ۔ کیا شاعر کیا بے نوا ۔ ہر ایک اس نعمت خداوندی پر فریفتہ ہے ۔رنگت خوش بو اور ذائقے میں یہ پھل ایسا ممتاز ہے کہ دیگر پھلوں کا بادشاہ ہے۔ ہر چند کے بادشاہت ان دنوں پسندیدہ طرز حکومت نہیں  رہا ۔ مگر ہمیں امید واثق ہے کہ اگر مملکت نباتات میں جمہوریت بھی آجائے تو صرف نظام ہی بدلے گا چہرے نہیں بدلیں گے ۔ حکمراں تب بھی آم ہی رہے گا ۔ اقتدار کا جھنڈا  اگر ایک ہی ہاتھ میں ہو ۔ تو چاہے بادشاہت ہو۔ آمریت ہو ۔ جمہوریت ہو ۔ حکمراں کا کچھ نہیں بگڑے گا ۔  آم گرمیوں کا پھل ہے ۔ گرمیوں کے اور بھی پھل ہیں مگر کسی کی کیا مجال کے آم  سامنےٹک سکے ۔ آموں کے آنے کے بعد کسی اور پھل پر نظر التفات  کا اٹھنا ہم بےوفائی سے تعبیر کرتے ہیں ۔ ہمیں یاد نہیں کہ کسی سال ہم نے وصال آم اور فراق آم کے درمیان کوئی پھل چکھا تک ہو ۔ باقی سال بھی جو پھل کھایاتو بس یوں سمجھ لیں کہ فراق یار میں جی بہلانے کو کھایا ۔ ایک طرح کی شدت پسندی ہے ۔ مگر کیا کریں

کراچی جلسہ

  کراچی والوں کا سیاسی مزاج پورے ملک سے مختلف ہے ۔ یہ آج کی بات نہیں ہمیشہ ہی سے یہ شہر الگ مزاج رکھتا ہے ۔ الگ مزاج کیسے نہ ہو۔ پورا ہندوستان اجڑا تو یہ شہر آباد ہوا۔ شہر نے ترقی کی روزگار آیا ۔ اور روزگار کی تلاش میں پورے ملک سے لوگ کراچی کی جانب کھنچے چلے آئے۔اب یہ شہر ایک نیا روپ لے چکا ہے ۔  اللہ نے ایک زمانے سے شہروں اور خوش حال خطّوں کا یہی نظام بنا رکھا ہے ۔ رازق روزی اتارتا ہے اور اس کے بندے اس روزی کی تلاش میں بڑے شہروں میں پہنچ جاتے ہیں ۔  کراچی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس میں بڑی بڑی آبادیاں ہیں ۔یعنی مہاجروں کی سب سے بڑی تعداد کراچی میں ہی ملی گی ۔ دیگر شہروں میں بھی ہجرت کرنے والے رہتے ہیں مگر جتنی تعداد میں کراچی میں مہاجر آباد ہیں اور کہیں نہیں۔ اگر کوئی سمجھے کہ پٹھانوں کا سب سے بڑا شہر پشاور ہے تو غلط ۔ دنیا میں سب سے زیادہ پٹھان کراچی میں رہتے ہیں ۔ بنگالیوں کی اتنی بڑی تعداد پاکستان میں اور کہیں نہیں جتنی کراچی میں ہے ۔ سرائیکیوں کی اتنی بڑی تعداد شاید ملتان میں بھی نہ ہو ۔ سندھ کے کسی شہر میں سندھیوں کی آبادی اتنی نہیں جتنی کراچی میں ہے ۔ کوئٹہ  سمیت بلوچستان کا کوئی