نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

2021 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

زبان دل

    وہ ذرے جن کو ہم خاک رہِ منزل سمجھتے ہیں زبانِ حال رکھتے ہیں زبانِ دل سمجھتے ہیں    جگر مراد آبادی کی شاعرانہ عظمت کے معترف تو بہت ہیں ۔ کم تو وہ ہیں جن کو اس لطیف کلام میں فلسفلہ کی گیرائی اور دانش کی گہرائی نظر آتی ہے ۔ اور یہ ایسا کچھ بے وجہ بھی نہیں ہوتا ۔ جگر کے   کلام کی غنائیت مشاہدے کی تلخی کو ڈھانپ لیتی ہے ۔ اظہار کے پیرائے ایسے مسحور کن ہیں کہ عام قاری کی رسائی ان فکری معرکوں تک نہیں ہو پاتی جہاں مراد آباد کے بانکے نے گردش دوراں کے بھیانک حقائق کو استعاروں کے پنجرے میں بند کیا ۔ عام قاری جگر کے کلام کو پڑھتا چلا جاتاہے ۔ فکری میناروں سے پھوٹتی کرنیں مناظر کو ایسا دل خوش کن بنا دیتی ہیں کہ مسافر ان میناروں کی طرف توجہ نہیں کر پاتا۔   میر تقی نے کہا تھا ۔ع سرسری تم جہان سے گزرے ورنہ ہر جا جہان دیگر تھا    ایک جگر کے کلام پر کیا موقوف مشاہدہ ہے کہ جہاں والوں کو یہ چلن عام ہے ۔ وہ جس شے میں محو ہوجائیں بس ہوجاتے ہیں ۔توجہ دوسری طرف نہیں کر پاتے ۔ یہ بات خوشی اور غمی ہر دو کیفیت میں یکساں رہتی ہے ۔ وقت اور حالات کی چاند ماری سے غافل کبھی مستقبل کے خدشات پر متوجہ نہیں