وہ ذرے جن کو ہم خاک رہِ منزل سمجھتے ہیں
زبانِ حال رکھتے ہیں زبانِ دل سمجھتے ہیں
جگر مراد آبادی کی شاعرانہ عظمت کے معترف تو بہت ہیں ۔ کم تو وہ ہیں جن کو اس
لطیف کلام میں فلسفلہ کی گیرائی اور دانش کی گہرائی نظر آتی ہے ۔ اور یہ ایسا کچھ
بے وجہ بھی نہیں ہوتا ۔ جگر کے کلام کی
غنائیت مشاہدے کی تلخی کو ڈھانپ لیتی ہے ۔ اظہار کے پیرائے ایسے مسحور کن ہیں کہ
عام قاری کی رسائی ان فکری معرکوں تک نہیں ہو پاتی جہاں مراد آباد کے بانکے نے
گردش دوراں کے بھیانک حقائق کو استعاروں کے پنجرے میں بند کیا ۔ عام قاری جگر کے
کلام کو پڑھتا چلا جاتاہے ۔ فکری میناروں سے پھوٹتی کرنیں مناظر کو ایسا دل خوش کن
بنا دیتی ہیں کہ مسافر ان میناروں کی طرف توجہ نہیں کر پاتا۔ میر تقی نے کہا تھا ۔ع
سرسری تم جہان سے گزرے
ورنہ ہر جا جہان دیگر تھا
ایک جگر کے کلام پر کیا موقوف مشاہدہ ہے کہ جہاں والوں کو یہ چلن عام ہے ۔ وہ جس شے میں محو ہوجائیں بس ہوجاتے ہیں ۔توجہ دوسری طرف نہیں کر پاتے ۔ یہ بات خوشی اور غمی ہر دو کیفیت میں یکساں رہتی ہے ۔ وقت اور حالات کی چاند ماری سے غافل کبھی مستقبل کے خدشات پر متوجہ نہیں ہوتے ۔ شب و روز کی نے کیسا ہی نغمہ کیوں نہ چھیڑ دے انہیں جھنجھوڑ نہیں پاتی کہ جو موجودات کی دھن میں مگن ہوں ۔ اقتدار کے ایوانوں کی گہما گہمی کے سبب تدبر کا پرندہ وہاں کم ہی قیام کرتا ہے ۔ اختیار کی لگام تھامے سوار کو سموں کی چنگاریاں مدہوش کر دیتی ہیں وہ سمجھ ہی نہیں پاتا کہ یہ رخش منہ زور راہ روان عدم کو اچانک ہی بے بسی کی کھائی میں گرا دیتا ہے ۔ تعریفوں کے شور میں تنبیہ کی آواز دب جاتی ہے ۔ استاد نصیر کوٹی نے کہا تھا ۔ع
ہر طرف بانگ جرس بانگ درا بانگ آزاں
سونے والے ہیں کہ لیتے نہیں انگڑائی بھی
مسند اقتدار کی بلندی سے اہل زمین بے حیثیت بونے نظر آتے ہیں ۔ ان کے فہم و فراست کو در خور اعتنا نہیں سمجھا جاتا ۔ حکمراں طبقہ جانتے بوجھتے حقائق سے رو گردانی کی روش اپناتا ہے ۔ عوامی خواہشات پر مفادات کا ہتھوڑا برسایا جاتا ہے ۔نخوت بڑھنے لگے تو حکومت کو ابدی حقیقت سمجنے والے مقتدر ازلی سے الجھنے لگتے ہیں ۔دیدہ بینا کے مشاہدے کو مشیت کے فتراک میں ایسے بہت سے فرعونِ بے ثروت موجود ہیں ۔ مگر دیکھنے کو آنکھ چاہئے ۔ پاکستانی سیاست کے دامن میں بھی ایسے کئی پیوند موجود ہیں ۔ایک وفاقی وزیر نے تحریک لبیک کو ایک چھوٹا سا عسکریت پسند گروہ قرار دیا ۔ موصوف محض اپنے لہجہ کی بے زاری اور حقارت سے یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ مظاہرین کی اہمیت اتنی بھی نہیں کہ ان پر بات کی جائے ۔ تین سال پہلے کے عام انتخابات میں پنجاب بھر سے تیسری اور ملک بھر سے پانچویں بڑی جماعت بن کر ابھرنے والی تحریک لیبک کی عوامی مقبولیت سے خائف وزیر موصوف کی کوشش تھی کہ ہر حقیقت کو محض غلط فہمی سمجھ لیا جائے ۔ یوں سمجھا جائے کہ گویا تحریک لبیک کو عوامی حمایت حاصل ہی نہیں ۔ یہ وزیر موصوف کی خواہش تو ہو سکتی ہے مگر وزارت اطلاعات کی جانب سے حق پر مبنی اطلاع نہیں ۔ فیاض علی فیاض نے کہا ۔ ع۔
دنیا نے خواہشوں کو جب بھی خبر بنایا
اندھی حقیقتوں سے نقصان ہی اٹھایا
سیاسی رہنما اقتدار کے حصول کے لیے خوشامد کے ساتھ جن لوگوں کی خدمت کا وعدہ کرتے ہیں بعد میں انہیں کو بے عقل سمجھ لیتے ہیں ۔ عوام کو اقتدار کے راستے کی گرد سمجھ لیا جاتا ہے ۔ حکمراں یہ بھول جاتے ہیں کہ اجتماعی معاشرتی شعور بے خبری پر مشتمل تو ہوسکتا ہے بے عقلی پر مشتمل نہیں ہوتا ۔ گرد راہ سمجھے جانے والے لوگ سب سمجھتے بھی ہیں اور اپنی اپنی صلاحیت و قوت کے مطابق اس کا اظہار بھی کرتے ہیں ۔ یہ الفاظ سے زیادہ احساس کے قائل ہوتے ہیں ۔ یہ انداز دیکھ کر ارادے جان لیتے ہیں ۔ یہ چہرہ دیکھ کر سوچ تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں ۔ یہ میلان دیکھ کر مستقبل کا فیصلہ کر لیتے ہیں ۔ یہ گردش ایام کی سمت مقرر کرتے ہیں ۔ ان کا رجحان منزلوں کا تعین کرتا ہے ۔ بالکل ویسے ہی جیسے مراد آباد کے دانش ور نے بتایا تھا ۔ ع
یہ ذرے جن کو ہم خاک رہ منزل سمجھتے ہیں
زبان حال رکھتے ہیں زبان دل سمجھتے ہیں
Great 😊
جواب دیںحذف کریںBohat khoob
جواب دیںحذف کریں