آم سے عام کو خطرہ
اس میں شک نہیں کہ بعض پھلوں کا ذائقہ انسان کو اپنا گرویدہ کر لیتا ہے ۔ مگر یہ کام جس انداز سے حضرت آم نے انجام دیا ہے اس کی نظیر ملنا مشکل ہے ۔ کیا شاہ کیا گدا ۔ کیا شاعر کیا بے نوا ۔ ہر ایک اس نعمت خداوندی پر فریفتہ ہے ۔رنگت خوش بو اور ذائقے میں یہ پھل ایسا ممتاز ہے کہ دیگر پھلوں کا بادشاہ ہے۔ ہر چند کے بادشاہت ان دنوں پسندیدہ طرز حکومت نہیں رہا ۔ مگر ہمیں امید واثق ہے کہ اگر مملکت نباتات میں جمہوریت بھی آجائے تو صرف نظام ہی بدلے گا چہرے نہیں بدلیں گے ۔ حکمراں تب بھی آم ہی رہے گا ۔ اقتدار کا جھنڈا اگر ایک ہی ہاتھ میں ہو ۔ تو چاہے بادشاہت ہو۔ آمریت ہو ۔ جمہوریت ہو ۔ حکمراں کا کچھ نہیں بگڑے گا ۔
آم گرمیوں کا پھل ہے ۔ گرمیوں کے اور بھی پھل ہیں مگر کسی کی کیا مجال کے آم سامنےٹک سکے ۔ آموں کے آنے کے بعد کسی اور پھل پر نظر التفات کا اٹھنا ہم بےوفائی سے تعبیر کرتے ہیں ۔ ہمیں یاد نہیں کہ کسی سال ہم نے وصال آم اور فراق آم کے درمیان کوئی پھل چکھا تک ہو ۔ باقی سال بھی جو پھل کھایاتو بس یوں سمجھ لیں کہ فراق یار میں جی بہلانے کو کھایا ۔ ایک طرح کی شدت پسندی ہے ۔ مگر کیا کریں کہ ہے تو ہے ۔ آموں کے انتظار میں ہم سخت سے سخت موسم بھی ہنس کر جھیل لیتے ہیں ۔ محبوب کے فراق میں گرمیوں کی لو بھی باد بہاری معلوم ہوتی ہے ۔ یہ تسلی ہوتی ہے کہ چلو ہم ہی مشکل میں ہیں ناں ۔ ان کو تو پھلنے پھولنے کا موقع مل رہا ہے ۔ ویسے بھی اگر آم لوگوں کو مشکل میں ڈال کر خود ترو تازہ نہ رہے تو اسے حکمراں کیوں سمجھیں ؟
مرزا غالب نے کہا تھا کہ آم میں فقط دو باتیں ہونی چاہئیں۔ ایک تو میٹھا ہو دوسرا بہت ہو ۔ آم کے بارے میں ہم انہی کے پیرو کار ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ
انگبیں کے، بحکم رب الناس
بھر کے بھیجے ہیں سربمہر گلاس
یا لگا کر خضر نے شاخ نبات
مدتوں تک دیا ہے آب حیات
تب ہوا ہے ثمر فشاں یہ نخل
ہم کہاں ورنہ اور کہاں یہ نخل
صاحب شاخ و برگ و بار ہے آم
ناز پروردہ بہار ہے آم
یعنی لوگوں کے پروردگار کے حکم سے ہی یہ شہد بھرے گلاس زمین پر اتارے گئے ہیں ۔ یا حضرت خضر علیہ سلام نے اس کا پودا خود لگایا اور پھر طویل عرصہ تک اس کو آب حیات سے سینچا کیا ۔ تب کہیں جا کے یہ اس پودے پر ہی لذیذ پھل نمودار ہو ا۔ ورنہ اسے حاصل کرنا انسانوں کے بس کی بات نہیں تھی ۔ ویسے تو یہ پھل خاص و عام ہر ایک ہی پسند کرتا ہے مگر شاعروں سے اس کا تعلق کسی اور سطح پر ہے ۔ اسی لیے جتنی شاعری آم پر پڑھنے کو مل سکتی ہے کسی اور پھل پر نہیں مل سکتی ۔ اکبر الہٰ آبادی نے علامہ اقبال کے لیے اپنے شہر سے لنگڑے آموں کا تحفہ بھیجا تو جواب میں اقبال نے یہ شعر کہا ۔
اثر یہ تیرے انفاس مسیحائی کا ہے اکبرؔ
الہٰ آباد سے لنگڑا چلا،لاہور تک پہنچا
آموں سے یہ محبت اور ان کے اوصاف پر یہ نظر محض ذائقہ کی بنیاد پر نہیں ہے ۔ اس پھل میں واقعی کچھ اوصاف ایسے بھی ہیں جن کو فقط اہل نظر جانتے ہیں ۔ شکل و صورت میں انسانی دل سے مماثلت رکھنے والا یہ شیریں پھل معنوی اعتبار سے بھی بعض اوصاف دل جیسے ہی رکھتا ہے ۔ کبھی توایسا شفاف ہوتا ہے کہ اگر اندر کا شیرہ بھی باہر آجائے تو اس کی لطافت پر داغ معلوم ہوتا ہے ۔ اور کبھی ایسی کثافت سے داغ دار ہوتا ہے کہ خریدنا تو درکنار قریب جانے کو بھی دل نہیں چاہتا ۔ مگر کیا کریں کہ اگر ہم قریب نہ بھی جائیں تو یہ گردش زمانہ اپنے داغ دار دامن کو پھیلا کر راستہ روک لیتی ہے ۔ شہر کی سڑکوں پر چلنے کی جگہ بھی نہیں بچتی
ۤآم کی آمد کے ساتھ ہی کراچی کی متعدد سڑکوں کا منظر دیدنی ہوجاتا ہے ۔ آموں کے ٹھیلے شہر میں قطار اندر قطار یوں سج جاتے ہیں جیسے کسی نے عروس البلاد کی فٹ پاتھوں پر ابٹن مل دیا ہو ۔پھلوں کے بادشاہ کی بدولت چشم تصور کو بھی شاہانہ وسعت ملتی ہے ۔جا بہ جا بکھرے ہوئے زرد رنگوں کے مخروطی اہرام یوں محسوس ہوتے ہیں گویا ہر ٹھیلا محل سرا ہو جس میں ایک دوشیزہ گیندے کے پھولوں سے بدن ڈھانپے بیٹھی ہو ۔ عام لوگ آم لیتے ہوئے اس کی رنگت اور خوش بو پر متوجہ ہوتے ہیں ۔ جب کہ عاشق صادق مزاج یار پر نظر رکھتا ہے ۔ پکا ہوا میٹھا اور رسیلا آم اہل ذوق کو خود پکارتا ہے ۔ ان کے سامنے اٹھلاتا ہے شوخیاں کرتا ہے ۔ محو گفتگو ہوتا ہے ۔ راز و نیاز کی یہ ساری داستانیں محض آنکھوں ہی آنکھوں میں ہوتی ہیں ۔ ایک ایک لمحے میں صدیوں کی باتیں ہوجائی ہیں ۔ اور فراق وصل میں ڈھل جاتا ہے ۔
مگر اس فراق اور وصال کے درمیان کا منظر بہت کثیف ہے ۔ جو آم کی مدح کو شہر آشوب کے لیے تشبب تک محدود کر دیتا ہے ۔ اور نگاہ ازخود شہر کے مسائل اور ان مسائل کے مستقبل کی جانب مڑ جاتی ہے ۔ آموں کی خریداری کے دوران ہی اندازہ ہوا کہ شہر کا شہر ایک خطرناک ڈگر پر چل نکلا ہے ۔ سڑکیں بازاروں میں تبدیل ہونے لگی ہیں ۔لوگ مال بیچنے کی جلدی میں سڑکوں اور فٹ پاتھوں تک آگئے ہیں ۔ راہ چلتے لوگوں کے راستے روکے جا رہے ہیں ۔ ٹھیلے پتھارے آدھی آدھی سڑک گھیرے کھڑے ہیں ۔
ہر چند کے سڑکوں کو بازار بنانے کا فن کراچی میں ایجاد نہیں ہوا مگر یہ شہر اس فنِ تجاوزات کی ترویج میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے ۔ اور بعید نہیں کہ یہاں دکانوں کا رواج ہی ختم ہوجائے ۔ بہت سے تاجر لاکھوں کروڑوں کی دکان لیے بیٹھے ہیں مگر فٹ پاتھ کے پتھارے کو رشک سے دیکھتے ہیں ۔ انہیں پتھاروں اور ٹھیوں کی دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کو دیکھ کر کرائے پر دکان لینے والوں کی حسرت بھی روز بہ روز بڑھتی جاتی ہے ۔ کیوں بلاوجہ کی کھکھیڑ پالی ہوئی ہے ۔ دکان کا کرایہ بھی دو ۔ بجلی کا بل بھی ۔انکم ٹیکس والوں کو بھی منہ دو ۔ ادھر پتھاروں پر نہ بجلی کا بل نہ کرائے کی فکر ۔ انکم ٹیکس کے بجائے صرف غنڈا ٹیکس ۔ وہ بھی لے دے کر ایک آدمی کو سو روپلی تھمادی ۔ چلو جی بیڑا پار ہے ۔
ظاہر سی بات ہے ان بے پایاں کاروباری سہولتوں کا اثر براہ راست اشیاکی قیمتوں پر پڑتا ہے ۔ اسی لیے ٹھیلے پر چیز سستی ملتی ہے ۔ پھر یہ آسانی بھی موجود ہے کہ صاحب اور بیگم صاحبہ کو گاڑی سے اترنے کی زحمت بھی نہیں کرنی پڑتی ۔ ادھر ہی گاڑی میں بیٹھے بیٹھے قیمت پوچھی ۔ سامان لیا اور روانہ ہوگئے ۔ یا نہیں ہوئی گاڑی تو موٹر سائیکل ہی ٹھیلے سے ملا کر روک لی ۔ پلاسٹ کی تھیلی میں سامان لیا اور موٹر سائیکل کے ہیندل میں پھنسا کر چلتے بنے ۔ دکان پر جاتے تو دس مصیبتیں تھیں ۔ پہلے موٹر سائیکل یا کار کھڑی کرنے کی جگہ ڈھونڈیں ۔ پھر اتر کر جائیں ۔ بھاو تاو کریں ۔چیز کے پیسے بھی دیں ۔ دکان کے اخراجات میں بھی حصہ ملائیں ۔ پھر پلٹ کر آئیں ۔ اگر پارکنگ والا کھڑا ہے تو اس کو بھی پیسے دیں ۔ اور شومیئ قسمت اگر ٹریفک پولیس والے گاڑی اٹھا کر لے گئے تو ایک اور جنجال۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خریدار دکانوں سے دور اور ٹھیلوں سے قریب ہوتے جاتے ہیں ۔
مصنوعی ارتقا کے اس عمل میں فطری ارتقا نے بھی اپنا حصہ ڈالنا شروع کر دیا ہے ۔ لوگ مسائل سے بچنے کے لیے راہ چلتے خریداری پر مائل ہو رہے ہیں ۔ ظاہر سی بات ہے جہاں خریدار کا جھکاو بڑھے گا وہاں کاروبار بھی بڑھے گا ۔ آج ایک پتھارا ہے کل دو ہوں گے ۔ آج آدھی سڑک پر مال بیچ رہے ہیں کل آدھی بھی نہیں چھوڑیں گے ۔ یہ شہر پہلے ہی دنیا کے بدترین شہروں میں شامل ہوچکا ہے ۔اکنامسٹ کے سروے نے ایک سو تہتر شہروں کی فہرست میں کراچی کو انہترواں درجہ دیا ہے ۔ اگر شہر ایسے ہی شُتر بےمہار کی طرح بڑھتا رہا تو پھر شاید لوگ اسے شہر گننا بھی چھوڑ دیں ۔
...........................
.............................
..........................
آم سے عام کو خطرہ
اس میں شک نہیں کہ بعض پھلوں کا ذائقہ انسان کو اپنا گرویدہ کر لیتا ہے ۔ مگر یہ کام جس انداز سے حضرت آم نے انجام دیا ہے اس کی نظیر ملنا مشکل ہے ۔ کیا شاہ کیا گدا ۔ کیا شاعر کیا بے نوا ۔ ہر ایک اس نعمت خداوندی پر فریفتہ ہے ۔رنگت خوش بو اور ذائقے میں یہ پھل ایسا ممتاز ہے کہ دیگر پھلوں کا بادشاہ ہے۔ ہر چند کے بادشاہت ان دنوں پسندیدہ طرز حکومت نہیں رہا ۔ مگر ہمیں امید واثق ہے کہ اگر مملکت نباتات میں جمہوریت بھی آجائے تو صرف نظام ہی بدلے گا چہرے نہیں بدلیں گے ۔ حکمراں تب بھی آم ہی رہے گا ۔ اقتدار کا جھنڈا اگر ایک ہی ہاتھ میں ہو ۔ تو چاہے بادشاہت ہو۔ آمریت ہو ۔ جمہوریت ہو ۔ حکمراں کا کچھ نہیں بگڑے گا ۔
آم گرمیوں کا پھل ہے ۔ گرمیوں کے اور بھی پھل ہیں مگر کسی کی کیا مجال کے آم سامنےٹک سکے ۔ آموں کے آنے کے بعد کسی اور پھل پر نظر التفات کا اٹھنا ہم بےوفائی سے تعبیر کرتے ہیں ۔ ہمیں یاد نہیں کہ کسی سال ہم نے وصال آم اور فراق آم کے درمیان کوئی پھل چکھا تک ہو ۔ باقی سال بھی جو پھل کھایاتو بس یوں سمجھ لیں کہ فراق یار میں جی بہلانے کو کھایا ۔ ایک طرح کی شدت پسندی ہے ۔ مگر کیا کریں کہ ہے تو ہے ۔ آموں کے انتظار میں ہم سخت سے سخت موسم بھی ہنس کر جھیل لیتے ہیں ۔ محبوب کے فراق میں گرمیوں کی لو بھی باد بہاری معلوم ہوتی ہے ۔ یہ تسلی ہوتی ہے کہ چلو ہم ہی مشکل میں ہیں ناں ۔ ان کو تو پھلنے پھولنے کا موقع مل رہا ہے ۔ ویسے بھی اگر آم لوگوں کو مشکل میں ڈال کر خود ترو تازہ نہ رہے تو اسے حکمراں کیوں سمجھیں ؟
مرزا غالب نے کہا تھا کہ آم میں فقط دو باتیں ہونی چاہئیں۔ ایک تو میٹھا ہو دوسرا بہت ہو ۔ آم کے بارے میں ہم انہی کے پیرو کار ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ
انگبیں کے، بحکم رب الناس
بھر کے بھیجے ہیں سربمہر گلاس
یا لگا کر خضر نے شاخ نبات
مدتوں تک دیا ہے آب حیات
تب ہوا ہے ثمر فشاں یہ نخل
ہم کہاں ورنہ اور کہاں یہ نخل
صاحب شاخ و برگ و بار ہے آم
ناز پروردہ بہار ہے آم
یعنی لوگوں کے پروردگار کے حکم سے ہی یہ شہد بھرے گلاس زمین پر اتارے گئے ہیں ۔ یا حضرت خضر علیہ سلام نے اس کا پودا خود لگایا اور پھر طویل عرصہ تک اس کو آب حیات سے سینچا کیا ۔ تب کہیں جا کے یہ اس پودے پر ہی لذیذ پھل نمودار ہو ا۔ ورنہ اسے حاصل کرنا انسانوں کے بس کی بات نہیں تھی ۔ ویسے تو یہ پھل خاص و عام ہر ایک ہی پسند کرتا ہے مگر شاعروں سے اس کا تعلق کسی اور سطح پر ہے ۔ اسی لیے جتنی شاعری آم پر پڑھنے کو مل سکتی ہے کسی اور پھل پر نہیں مل سکتی ۔ اکبر الہٰ آبادی نے علامہ اقبال کے لیے اپنے شہر سے لنگڑے آموں کا تحفہ بھیجا تو جواب میں اقبال نے یہ شعر کہا ۔
اثر یہ تیرے انفاس مسیحائی کا ہے اکبرؔ
الہٰ آباد سے لنگڑا چلا،لاہور تک پہنچا
آموں سے یہ محبت اور ان کے اوصاف پر یہ نظر محض ذائقہ کی بنیاد پر نہیں ہے ۔ اس پھل میں واقعی کچھ اوصاف ایسے بھی ہیں جن کو فقط اہل نظر جانتے ہیں ۔ شکل و صورت میں انسانی دل سے مماثلت رکھنے والا یہ شیریں پھل معنوی اعتبار سے بھی بعض اوصاف دل جیسے ہی رکھتا ہے ۔ کبھی توایسا شفاف ہوتا ہے کہ اگر اندر کا شیرہ بھی باہر آجائے تو اس کی لطافت پر داغ معلوم ہوتا ہے ۔ اور کبھی ایسی کثافت سے داغ دار ہوتا ہے کہ خریدنا تو درکنار قریب جانے کو بھی دل نہیں چاہتا ۔ مگر کیا کریں کہ اگر ہم قریب نہ بھی جائیں تو یہ گردش زمانہ اپنے داغ دار دامن کو پھیلا کر راستہ روک لیتی ہے ۔ شہر کی سڑکوں پر چلنے کی جگہ بھی نہیں بچتی
ۤآم کی آمد کے ساتھ ہی کراچی کی متعدد سڑکوں کا منظر دیدنی ہوجاتا ہے ۔ آموں کے ٹھیلے شہر میں قطار اندر قطار یوں سج جاتے ہیں جیسے کسی نے عروس البلاد کی فٹ پاتھوں پر ابٹن مل دیا ہو ۔پھلوں کے بادشاہ کی بدولت چشم تصور کو بھی شاہانہ وسعت ملتی ہے ۔جا بہ جا بکھرے ہوئے زرد رنگوں کے مخروطی اہرام یوں محسوس ہوتے ہیں گویا ہر ٹھیلا محل سرا ہو جس میں ایک دوشیزہ گیندے کے پھولوں سے بدن ڈھانپے بیٹھی ہو ۔ عام لوگ آم لیتے ہوئے اس کی رنگت اور خوش بو پر متوجہ ہوتے ہیں ۔ جب کہ عاشق صادق مزاج یار پر نظر رکھتا ہے ۔ پکا ہوا میٹھا اور رسیلا آم اہل ذوق کو خود پکارتا ہے ۔ ان کے سامنے اٹھلاتا ہے شوخیاں کرتا ہے ۔ محو گفتگو ہوتا ہے ۔ راز و نیاز کی یہ ساری داستانیں محض آنکھوں ہی آنکھوں میں ہوتی ہیں ۔ ایک ایک لمحے میں صدیوں کی باتیں ہوجائی ہیں ۔ اور فراق وصل میں ڈھل جاتا ہے ۔
مگر اس فراق اور وصال کے درمیان کا منظر بہت کثیف ہے ۔ جو آم کی مدح کو شہر آشوب کے لیے تشبب تک محدود کر دیتا ہے ۔ اور نگاہ ازخود شہر کے مسائل اور ان مسائل کے مستقبل کی جانب مڑ جاتی ہے ۔ آموں کی خریداری کے دوران ہی اندازہ ہوا کہ شہر کا شہر ایک خطرناک ڈگر پر چل نکلا ہے ۔ سڑکیں بازاروں میں تبدیل ہونے لگی ہیں ۔لوگ مال بیچنے کی جلدی میں سڑکوں اور فٹ پاتھوں تک آگئے ہیں ۔ راہ چلتے لوگوں کے راستے روکے جا رہے ہیں ۔ ٹھیلے پتھارے آدھی آدھی سڑک گھیرے کھڑے ہیں ۔
ہر چند کے سڑکوں کو بازار بنانے کا فن کراچی میں ایجاد نہیں ہوا مگر یہ شہر اس فنِ تجاوزات کی ترویج میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے ۔ اور بعید نہیں کہ یہاں دکانوں کا رواج ہی ختم ہوجائے ۔ بہت سے تاجر لاکھوں کروڑوں کی دکان لیے بیٹھے ہیں مگر فٹ پاتھ کے پتھارے کو رشک سے دیکھتے ہیں ۔ انہیں پتھاروں اور ٹھیوں کی دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کو دیکھ کر کرائے پر دکان لینے والوں کی حسرت بھی روز بہ روز بڑھتی جاتی ہے ۔ کیوں بلاوجہ کی کھکھیڑ پالی ہوئی ہے ۔ دکان کا کرایہ بھی دو ۔ بجلی کا بل بھی ۔انکم ٹیکس والوں کو بھی منہ دو ۔ ادھر پتھاروں پر نہ بجلی کا بل نہ کرائے کی فکر ۔ انکم ٹیکس کے بجائے صرف غنڈا ٹیکس ۔ وہ بھی لے دے کر ایک آدمی کو سو روپلی تھمادی ۔ چلو جی بیڑا پار ہے ۔
ظاہر سی بات ہے ان بے پایاں کاروباری سہولتوں کا اثر براہ راست اشیاکی قیمتوں پر پڑتا ہے ۔ اسی لیے ٹھیلے پر چیز سستی ملتی ہے ۔ پھر یہ آسانی بھی موجود ہے کہ صاحب اور بیگم صاحبہ کو گاڑی سے اترنے کی زحمت بھی نہیں کرنی پڑتی ۔ ادھر ہی گاڑی میں بیٹھے بیٹھے قیمت پوچھی ۔ سامان لیا اور روانہ ہوگئے ۔ یا نہیں ہوئی گاڑی تو موٹر سائیکل ہی ٹھیلے سے ملا کر روک لی ۔ پلاسٹ کی تھیلی میں سامان لیا اور موٹر سائیکل کے ہیندل میں پھنسا کر چلتے بنے ۔ دکان پر جاتے تو دس مصیبتیں تھیں ۔ پہلے موٹر سائیکل یا کار کھڑی کرنے کی جگہ ڈھونڈیں ۔ پھر اتر کر جائیں ۔ بھاو تاو کریں ۔چیز کے پیسے بھی دیں ۔ دکان کے اخراجات میں بھی حصہ ملائیں ۔ پھر پلٹ کر آئیں ۔ اگر پارکنگ والا کھڑا ہے تو اس کو بھی پیسے دیں ۔ اور شومیئ قسمت اگر ٹریفک پولیس والے گاڑی اٹھا کر لے گئے تو ایک اور جنجال۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خریدار دکانوں سے دور اور ٹھیلوں سے قریب ہوتے جاتے ہیں ۔
مصنوعی ارتقا کے اس عمل میں فطری ارتقا نے بھی اپنا حصہ ڈالنا شروع کر دیا ہے ۔ لوگ مسائل سے بچنے کے لیے راہ چلتے خریداری پر مائل ہو رہے ہیں ۔ ظاہر سی بات ہے جہاں خریدار کا جھکاو بڑھے گا وہاں کاروبار بھی بڑھے گا ۔ آج ایک پتھارا ہے کل دو ہوں گے ۔ آج آدھی سڑک پر مال بیچ رہے ہیں کل آدھی بھی نہیں چھوڑیں گے ۔ یہ شہر پہلے ہی دنیا کے بدترین شہروں میں شامل ہوچکا ہے ۔اکنامسٹ کے سروے نے ایک سو تہتر شہروں کی فہرست میں کراچی کو انہترواں درجہ دیا ہے ۔ اگر شہر ایسے ہی شُتر بےمہار کی طرح بڑھتا رہا تو پھر شاید لوگ اسے شہر گننا بھی چھوڑ دیں ۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں