کراچی
والوں کا سیاسی مزاج پورے ملک سے مختلف ہے ۔ یہ آج کی بات نہیں ہمیشہ ہی سے یہ شہر
الگ مزاج رکھتا ہے ۔ الگ مزاج کیسے نہ ہو۔ پورا ہندوستان اجڑا تو یہ شہر آباد ہوا۔
شہر نے ترقی کی روزگار آیا ۔ اور روزگار کی تلاش میں پورے ملک سے لوگ کراچی کی
جانب کھنچے چلے آئے۔اب یہ شہر ایک نیا روپ لے چکا ہے ۔ اللہ نے ایک زمانے سے
شہروں اور خوش حال خطّوں کا یہی نظام بنا رکھا ہے ۔ رازق روزی اتارتا ہے اور
اس کے بندے اس روزی کی تلاش میں بڑے شہروں میں پہنچ جاتے ہیں ۔
کراچی
کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس میں بڑی بڑی آبادیاں ہیں ۔یعنی مہاجروں کی سب سے بڑی
تعداد کراچی میں ہی ملی گی ۔ دیگر شہروں میں بھی ہجرت کرنے والے رہتے ہیں مگر جتنی
تعداد میں کراچی میں مہاجر آباد ہیں اور کہیں نہیں۔ اگر کوئی سمجھے کہ پٹھانوں کا
سب سے بڑا شہر پشاور ہے تو غلط ۔ دنیا میں سب سے زیادہ پٹھان کراچی میں رہتے ہیں ۔
بنگالیوں کی اتنی بڑی تعداد پاکستان میں اور کہیں نہیں جتنی کراچی میں ہے ۔
سرائیکیوں کی اتنی بڑی تعداد شاید ملتان میں بھی نہ ہو ۔ سندھ کے کسی شہر میں
سندھیوں کی آبادی اتنی نہیں جتنی کراچی میں ہے ۔ کوئٹہ سمیت بلوچستان کا
کوئی شہر بلوچوں کی آبادی میں کراچی سے آگے نہیں ۔ پنجابیوں کی بھی ایک بہت بڑی
تعداد موجود ہے ۔ یہ تو ہوئے پاکستانی ان کے علاوہ برمیوں اور چینوں کی بھی
ایک بہت بڑی تعداد کراچی میں رہتی ہے ۔
اس
لیے اس شہر کا مزاج پاکستان کے کسی بھی دوسرے شہر سے بالکل مختلف ہے ۔ یہاں کے
حالات بھی مختلف ہیں ۔ لوگوں کے رویے بھی مختلف ہیں ۔دفتروں کی چھٹی کے وقت
شہر کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سفر کرنا ہو تو کئی گھنٹے صرف ہوجاتے ہیں ۔ یہ سفر
تو پھر بھی ختم ہوجات ہے مگر بعض اوقات شہر کے ایک علاقے سے دوسرے
علاقے میں فرق کئی کئی صدیوں پر محیط ہوتا ہے جو تاحال ختم نہیں ہوا ہے ۔
شہر میں رہنے والوں کو اس تکلیف اور اذیت کی عادت ہے۔تحریک انصاف کے جلسے میں جانے
والے چونٹی کی چال سے ایک دوسرے کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے ۔ جو فاصلہ عام حالات
میں دو چار منٹ میں طے ہوجاتا ہے اسی کو
طے کرنے کے لیے کئی گھنٹے درکار تھے۔
ایک خلقت تھی ، ایک جم غفیر تھا۔ ہر چہرہ ایک تحریر ہوتا ہے ۔ انسان کی پوری شخصیت اس کے چہرے پر تحریر ہوتی ہے ۔ دیدہ وروں کو چہرے کے تاثرات ہی دل کے حال کا پتہ دے دیتے ہیں ۔ احساس کی انگلیاں اگر معاشرے کی نبض پر ہوں تو لوگوں کا مزاج سمجھنا مشکل نہیں رہتا ۔ ورنہ تو بہت سے لوگوں کے لیے وہی حالات ہیں کہ جو قتیل نے کہا تھا۔
ع
برسوں
چلے قتیل زمانے کے ساتھ ہم
واقف
ہوئے نہ پھر بھی زمانے کی چال سے
عموماً لوگ اپنا مافی الضمیر بیان کرنے پر قدرت نہیں رکھتے ۔ یہ صلاحیت بھی خدا کسی کسی کو دیتا ہے ۔ لوگ بولتے نہیں ہیں ۔ خاموش رہتے ہیں ۔ مگر محسوس کرتے ہیں ۔ ردعمل دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ انہیں رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ایک توانا آواز کی ضرورت ہوتی ہے جووہ بات کہہ سکے جو لوگ کہنا چاہتے ہیں ۔ جیسے مرزا غالب نے کہا تھا۔
ع
دیکھنا
تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں
نے یہ سمجھا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
بعض لوگ ایسی زبان ایسا لہجہ اختیار کرتے ہیں کہ جو پوری قوم کی ترجمانی کر دیتاہے۔ پھر لوگ اس کے پیچھے چلنا شروع کر دیتے ہیں ۔ کراچی کے جلسے میں لوگوں کے چہروں پر لکھا تھا کہ ان کو اپنی ترجمانی کی ضرورت ہے ۔ ایک توانا آواز جو وہ بات کہہ دے جو لوگ کہنا چاہتے ہیں ۔ جلسے میں ہر علاقے سے لوگ آئے تھے ۔ بھانت بھانت کے چہرے تھے بھانت بھانت کے لوگ ۔ ڈیفنس اور کلفٹن کےنعمتوں میں پلنے والے شاداب چہرے ۔ گلشن اور ناظم آباد میں متوسط گھرانوں کی ذمہ داریاں اٹھانے والے متفکر چہرے۔ نیو کراچی اور سرجانی کے بے فکر بانکے ۔ کھارادر کے میمن ۔جدید فیشن کے کپڑوں میں ملبوس لڑکیاں ۔ برقع پوش باپرداہ خواتین ۔ چادر میں لپٹی ادھیڑ عمر عورتیں ۔ بڑی بوڑھیاں ۔ چھوٹی عمر کے لڑکے ۔ توانا نوجوان ۔ الغرض ہر عمر اور ہر طبقے کے لوگ امڈے چلے آئے۔ کراچی کے شہریوں نے بزبان حال یہ بتادیا کہ وہ قومی دھارے کی سیاست سے متنفر نہیں ۔ جلسہ نمائش چورنگی پر تھا جلسہ گاہ میں لوگ کھچا کھچ بھر ہوئے تھے جب کہ نمائش سے گرومندر تک بھی لوگوں کا ہجوم تھا ۔ میں نے جلسہ گاہ میں لوگوں کے چہرے پڑھنے کی کوشش کی ۔ جلسہ گاہ کے باہر لوگوں کی باتیں سنیں ۔ ان کے نعروں پر غور کیا۔ بہت توجہ سے دیکھا کہ لوگ نعروں کا جواب کیسے دے رہے ہیں ۔ لوگوں کے چہروں پر غصہ نمایاں تھا ۔ بے بسی جب حد سے بڑھ جائے ارتعاش کا سبب بننے لگتی ہے ۔ فانی نے کہا تھا ۔
ع
میں
نے فانیؔ ڈوبتی دیکھی ہے نبض کائنات
جب
مزاج یار کچھ برہم نظر آیا مجھے
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں