نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

سازش اور مداخلت میں فرق



سازش اور مداخلت میں فرق

 

سیاسی اختلاف ہی کی طرح سیاسی اتفاق کا حق بھی ہر ذی شعور کو حاصل ہے۔ جس سے چاہے اتفاق کیجئے جس سے چاہے اختلاف، مگر بہرحال یہ اتفاق یا اختلاف اتنا وزنی ضرور ہونا چاہئے کہ ہواؤں کے دوش پر ڈولتا نہ پھرے۔  ہر ایک کی رائے کو سمجھ ضرور لیں یہ ضروری نہیں کہ سمجھنے کے بعد اس رائے کو تسلیم بھی کرلیا جائے ۔ لیکن کم از کم یہ پتہ ضرور ہونا چاہئے کہ کس فریق کا کیا موقف ہے ۔حکومت بدلنے کی امریکی سازش سے متعلق تحریک انصاف اور عمران خان کا موقف اور اس کے جواب میں حزب اختلاف کی جماعتوں کا موقف جاننا ہر شہری کا جمہوری حق ہے ۔ یہ جاننا بھی ہر شہری کا حق ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کا موقف کیا تھا ۔ اور پاک فوج کا موقف کیا ہے۔  امریکا کیا کہتا ہے اور روس نے کیا رائے اختیار کی ہے ۔بنیادی سطح پر یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ اپنی رائے کے قیام کے لیے ہر شخص پر یہ باتیں جاننا ضروری نہیں ۔  ہر شخص کو آزادی حاصل ہے کہ وہ بغیر کچھ جانے بھی رائے قائم کرسکے ۔ یا پھر صحافیوں کے ایک طبقہ کی طرح اپنے ادارے کے مالکان کا ساتھ دے اور کسی ایک موقف کے لیے رائے عامہ کی ہمواری کا کام کرے۔

 

خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ اصل معاملہ ہے امریکی سازش اور مداخلت کے فرق کا ۔ امریکا نوازی اور امریکا دشمنی کا ۔  کہانی کا آغاز آپ اپنی مرضی، مطالعہ اور یاداشت کی بنیاد پر جہاں سے چاہیں وہاں سے کرسکتے ہیں۔ہمیں اور آپ کو تو صرف اس موڑ پر ملنا ہے جہاں سے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بحیثیت وزیر اعظم پاکستان یہ اعلان کیا کہ امریکا ان کی حکومت کے خلاف سازش کر رہا ہے اور حزب اختلاف کی جماعتیں اس سازش میں امریکا کے مہرے کا کام کر رہی ہیں ۔ اس موڑ پر کہ جہاں عمران خان نے ایک کاغذ لہرا کر کہا اعلان کیا کہ پاکستان کو  لکھت میں دھمکی دی گئی ہے کہ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب نہ ہوئی تو پاکستان کے لیے آئندہ کے معاملات مشکل ہوجائیں گے ۔ جس کے بعد سے اس وقت کی حزب اختلاف نے تو کم مگر ان کے منظور نظر لوگوں نے زیادہ شور مچانا شروع کر دیاکہ ایسا کچھ نہیں ہے ۔

 

ادھر وزیر اعظم چیخ چیخ کے بتا رہے تھے کہ دفتری  تحریر میں دھمکی دی  گئی ہے ۔ ادھر ڈھول پیٹے جا رہے تھے کہ ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں ہے سب جھوٹ ہے ۔ تحریک انصاف اور عمران خان کی آواز بلند ہوتی گئی ہوتی گئی ۔ جواب میں جمیعت علمائے اسلام ف ،مسلم لیگ ن اور  پیپلزپارٹی  سمیت ایک درجن سے زیادہ جماعتیں اس کی مخالفت کرتی رہیں ۔ لیکن ان سب سے زیادہ مخالفت  بعض صحافیوں نے کی  ۔ بڑے بڑے دعوے کیے گئے کہ ایسا کوئی کاغذ  (سائفر ۔  کیبل ۔ خط ۔ مراسلہ جو چاہیں کہہ لیں )موجود ہی نہیں ۔بعض افراد نے تو دعویٰ خام ہونے کی صورت میں صحافت چھوڑنے کا اعلان کیا۔بعض لوگوں نے یہ بھی دھمکی دی کہ اگر ان کا دعویٰ جھوٹا نکلا تو وہ  احتجاجاً صحافت شروع کر دیں گے ۔ 

 

وزیر اعظم نے دھمکی والا کاغذ (سا ئفر ۔  کیبل ۔ خط ۔ مراسلہ جو چاہیں کہہ لیں )دکھانے کے لیے   قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلالیا ۔ اس اجلاس میں کیا باتیں ہوئیں   یہ تو انہیں لوگوں کو معلوم ہوں گی جو وہاں تھے ۔ البتہ دنیا کو پاکستان کا موقف بتانے کے لیے اس اجلاس کا ایک اعلامیہ جاری کی گیا ۔ جس میں یہ بتایاگیا کہ اس اجلاس میں شرکا نے کس چیز پر بات کی ہے اور وہ کیا رائے رکھتے ہیں ۔عمران خان نے بتایا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں اسی کاغذ پر بات ہوئی ۔  شرکا نے دھمکی آمیز زبان اور مداخلت پر احتجاج کرنے کا کہا۔ شرکا کے صلاح مشورے سے پاکستان نے امریکا سے احتجاج بھی کیا۔اعلامیہ میں بھی یہی لکھا تھا ۔   

 

قومی سلامتی کمیٹی پاکستان کی ایک بہت سنجیدہ مجلس ہے ۔ لہذا اس میں صحافیوں کو جھانکنے کی اجازت نہیں ۔البتہ صحافیوں کو اعلامیہ سے کھیلنے کی اجازت کی ضرورت نہیں تھی ۔یہی شور جاری تھا کہ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار   پریس کانفرنس  کے لیے آگئے ۔بات چیت کے بعد جب سوالات کا مرحلہ آیا تو صحافیوں نے سوال داغنے شروع کیے ۔ پوچھا گیا کہ کیا قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں کسی سازش کی بات کی گئی ۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ اجلاس میں کیا بات کی گئی ہے وہ تو بتائی نہیں جاسکتی البتہ اعلامیہ دیکھ لیں اس میں کسی سازش کا لفظ نہیں ہے۔ اعلامیہ میں کاغذ  (سا ئفر ۔  کیبل ۔ خط ۔ مراسلہ )کی زبان پراحتجاج  (ڈیمارش) کیا گیا اور مداخلت پر  احتجاج  (ڈیمارش) کیا گیا۔ 

 

اب آتے ہیں کہ اصل موضوع پر کہ کس فریق کا کیا موقف ہے ۔ عمران خان یا تحریک انصاف کا موقف یہ ہے کہ پاکستان کی آزاد اور خود مختار خارجہ پالیسی  (روس کی طرف جھکاؤ)  پر امریکا ناراض  ہے اس لیے اس نے حکومت گرانے کامنصوبہ بنایا (سازش کی) ۔ امریکا کی آشرباد سے پاکستان میں حزب اختلاف نے حکومت کے ارکان اسمبلی کو خریدا ۔ پیسے دے کر انہیں حکومت کے خلاف کیا ۔ اتحادی جماعتوں کو اپنے ساتھ ملایا اور وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی ۔امریکی آشرباد کی دلیل کے طور پر عمران خان نے وہ کاغذ دکھایا کہ جس میں پاکستان کو دھمکی دی گئی ہے ۔ یعنی امریکا کا پاکستان کو دھمکی دینا یہ ثابت کرتا ہے کہ کوئی سازش ہو رہی ہے ۔ تحریک عدم اعتماد پر امریکی موقف  امریکا اور حزب اختلاف کے گٹھ جوڑ کا ثبوت ہے ۔ 

 

بعض لوگوں نے اس موقف کو اس طرح پیش کیا گویا عمران خان یہ کہہ رہے ہیں کہ اس کاغذ پر پوری سازش لکھ کر بھیجی گئی ہے  اور وہ کاغذ قومی سلامتی کمیٹی کے سامنے بھی رکھ دیا گیا ہے ۔نہیں۔ عمران خان کا موقف یہ ہے کہ ایک بڑی سازش ہو رہی ہے ۔ جس  میں حزب اختلاف (کے بعض رہنما)اور امریکا ایک ہیں۔ پاکستان کو موصول ہونے والا دفتری کاغذ اس سازش کے خلاف ایک (صرف ایک ) ثبوت ہے ۔ جس میں امریکا نے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی پر معافی دینے کی بات کی  اور ناکامی پر دھمکی دی ہے ۔یہ ثبوت  (سا ئفر ۔  کیبل ۔ خط ۔ مراسلہ )قومی سلامتی کمیٹی کے سامنے رکھا ۔ کمیٹی نے  تسلیم کیا ہے کہ یہ کاغذ اصل ہے اور دفتری سطح پر موصول ہوا ہے ۔ اس کاغذ پر جو کچھ لکھا گیا ہے وہ پاکستان کے معاملات میں مداخلت ہے ۔ اسی مداخلت کی بنیاد پر امریکا سے احتجاج کیا گیا۔ 

 

پاک فوج کا موقف ڈی جی آئی ایس پی آر نے دیا ۔ بابر افتخار نے اپنی بات کو صرف اس مجلس تک محدود رکھا جہاں ان کا ادارہ شریک ہے  یعنی قومی سلامتی کمیٹی ۔ بلکہ یوں کہہ لیں کہ  ڈائریکٹر جنرل نے صرف اعلامیہ پر گفتگو کی ۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے (پاک فوج) کے سامنے ایک کاغذ لایا گیا۔ہم نے اس کاغذ پر گفتگو کی (گفتگو کیا کی یہ خفیہ ہے)۔ اعلامیہ میں اس پر رائے دی کہ یہ پاکستان میں مداخلت ہے ۔ چوں کہ عالمی سازش پاکستان تحریک انصاف کا موقف ہے  ۔اس لیے پاک فوج کا اس پر بات کرنا بنتا نہیں ہے ۔ نہ ہی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس کسی سازش کو بے نقاب کرنے کے لیے بلایا گیا۔ اجلاس تو اس لیے بلایا گیا تھا کہ ایک کاغذ موصول ہوا ہے ۔ لہذا صرف اسی کاغذ پر رائے ظاہر کی گئی ۔ سیاسی جماعت اس کاغذ پر کیا موقف رکھتی ہےیہ ایک الگ بات ہے اور ملک کی  ایک سنجیدہ مجلس میں اس کاغذ پر کیا موقف اختیار کیا گیا یہ ایک علیحدہ بات ہے ۔ 

 یہ ہے وہ نکتہ جسے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ قومی سلامتی کمیٹی ریاست کا بیانیہ دیتی ہے ۔ اور ریاست کے سامنے  ایک کاغذ ہے ۔ ریاست کاغذ کو مانتی ہے ۔ یہ بھی مانتی ہے کہ امریکا نے مداخلت کی ہے ۔جتنی مداخلت کی ہے اتنا احتجاج بھی کر دیا گیا ہے۔ مگر بغیر تحقیق اور ثبوت کے سازش  کی تصدیق نہیں کی جاسکتی ۔ البتہ اس سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا۔ بس اتنا بتا دیا گیا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے سامنے ایک کاغذ تھا جس سے مداخلت ثابت ہوتی تھی اس لیے اس پر احتجاج ریکارڈ کرا دیا گیا

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

آم سے عام کو خطرہ

آم سے عام کو خطرہ اس میں شک نہیں کہ بعض پھلوں کا ذائقہ انسان کو اپنا گرویدہ کر لیتا ہے ۔ مگر یہ کام جس انداز سے حضرت آم نے انجام دیا ہے اس کی نظیر ملنا مشکل ہے ۔ کیا شاہ کیا گدا ۔ کیا شاعر کیا بے نوا ۔ ہر ایک اس نعمت خداوندی پر فریفتہ ہے ۔رنگت خوش بو اور ذائقے میں یہ پھل ایسا ممتاز ہے کہ دیگر پھلوں کا بادشاہ ہے۔ ہر چند کے بادشاہت ان دنوں پسندیدہ طرز حکومت نہیں  رہا ۔ مگر ہمیں امید واثق ہے کہ اگر مملکت نباتات میں جمہوریت بھی آجائے تو صرف نظام ہی بدلے گا چہرے نہیں بدلیں گے ۔ حکمراں تب بھی آم ہی رہے گا ۔ اقتدار کا جھنڈا  اگر ایک ہی ہاتھ میں ہو ۔ تو چاہے بادشاہت ہو۔ آمریت ہو ۔ جمہوریت ہو ۔ حکمراں کا کچھ نہیں بگڑے گا ۔  آم گرمیوں کا پھل ہے ۔ گرمیوں کے اور بھی پھل ہیں مگر کسی کی کیا مجال کے آم  سامنےٹک سکے ۔ آموں کے آنے کے بعد کسی اور پھل پر نظر التفات  کا اٹھنا ہم بےوفائی سے تعبیر کرتے ہیں ۔ ہمیں یاد نہیں کہ کسی سال ہم نے وصال آم اور فراق آم کے درمیان کوئی پھل چکھا تک ہو ۔ باقی سال بھی جو پھل کھایاتو بس یوں سمجھ لیں کہ فراق یار میں جی بہلانے کو کھایا ۔ ایک طرح کی شدت پسندی ہے ۔ مگر کیا کریں

اے آئی ۔رضیہ غنڈوں میں پھنس گئی

اے آئی  ۔رضیہ  غنڈوں میں پھنس گئی   آرٹی فیشل انٹیلی جنس ۔رضیہ  غنڈوں میں پھنس گئی ان دنوں ہمارے چاروں طرف اے آئی یعنی آرٹی فیشل انٹیلی جنس کا شور ہے۔ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ حضرت انسان نے کمپیوٹر کو اتنی ترقی دے دی ہے کہ اب وہ خود ہماری مدد کرنے پر تُل گیا ہے ۔ لیکن یہ بس خیال ہی ہے ۔ خدا گواہ ہے ہمیں تو بےچارے کمپیوٹر پر ترس ہی آتا ہے ۔ اسے اندازہ ہی نہیں ہو رہا کہ کس کے ہتھے چڑھ گیا ہے ۔  ابھی تو اس غریب کو یہ لگ رہا ہے کہ اسے بھی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مل گئی ہے  لہذا وہ لوگوں کے کام آئے گا ۔ مگر وہ دن دور نہیں کہ اسے بھی لگ پتہ جائے گا کہ اس کے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے ۔ میاں یہ انسان  ہے ۔ جب اپنی پر آجائے تو کیا کمپیوٹر کیا فلسفہ کیا سائنس   ۔ سب کو ایک ہی لکڑی سے ہانکتا ہے ۔ ذرا سوچیئے تو سہی ۔ تانبے ۔لوہے ۔اور پلاسٹک سے بنے جادوئی ڈبے کی کیا مجال ہے کہ ہمارے آگے پر مارے۔ ابھی تو بہت پھڑپھڑا رہا ہے ناں ۔ کچھ دن رک جائیں ۔ اسے پتہ پڑ جائے گا کہ واسطہ کس سے پڑا ہے ۔ یہ کمپیوٹر خود چلا چلا کر کہے گا بھائی معاف کر دے  غلطی ہوگئی ۔ تجھے سمجھانے چلا تھا ۔ جن لوگوں کو اپنی پڑھائی لکھائی پر زعم

`تھوڑا سا گلہ بھی سن لے۔۔

تھوڑا سا گلہ بھی سن لے ​ اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ قوموں کو قوموں پر، زبانوں کو زبانوں پر ، ادوار کو ادوار پر، کردارد کو کردار پر، انسان کو انسان پر اور پکوان کو پکوان پر ۔ اس میں حتی الامکان غیر منطقی تقابل سے گریز کرنا چاہیئے۔ یعنی انسان کا موازنہ قوم سے نہیں ہوسکتا اور کردار کا موازنہ ادوار سے ممکن نہیں ۔ اب اگر کسی دور کو فضیلت دی گئی ہے تو یہ مطلب نہیں کہ اس دور کی ہر قوم کو فضیلت ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ جس قوم کی زبان کو فضیلت دی گئی ہے اس کے پکوان بھی لذیز ہوں ۔ کھانوں کے بارے میں ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے برِصغیر کے کھانوں کو باقی دنیا پر فضلیت بخشی ہے ۔ بس اتنی سی بات ہمارے دوستوں کی سمجھ میں نہ آسکی۔ عرب شیوخ سے اپنی بے لوث محبت اور لگاؤ کے اظہار کیلئے ان کے پکوان دوستوں کو کھلانے پر تُلے ہوئے ہیں ۔ کل رات بھی انہیں مقاصد کی تکمیل میں "مندی" کی دعوت دی گئی۔ اب قابلِ احترام دوستوں کو یہ کیسے سمجھائیں کہ قبلہ ، یہ مردہ بکرا اور پھیکے چاول ، زیتون کے تیل میں بھگو کر کھانے کے تصور ہی سے جھرجھری طاری ہو جاتی ہے ۔ اوپر سے اس می